آج انکار نہ فرمائیے آپ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آج انکار نہ فرمائیے آپ
by رند لکھنوی

آج انکار نہ فرمائیے آپ
شب کی شب گھر مرے رہ جائیے آپ

جائیے گھر کو نہ گھبرائیے آپ
ہم نہ مر جائیں گے بس جائیے آپ

کھول دو شوق سے بند انگیا کے
لیٹ کر ساتھ نہ شرمائیے آپ

آتے ہی کہتے ہو میں جاؤں گا
میں بھی آنے کا نہیں جائیے آپ

ڈھونڈھتے پھریے اگر لے کے چراغ
مجھ سا عاشق جو کہیں پائیے آپ

عمر بھر تو نہ قدم رنجہ کیا
آئیے اب تو نہ ترسائیے آپ

جان مشتاق لبوں پر آئی
کچھ وصیت ہے وہ سن جائیے آپ

دل سمجھتا نہیں مجھ سے ناصح
آپ سے سمجھے تو سمجھایئے آپ

سایہ ساں شوق میں افتاں خیزاں
ساتھ رہتا ہوں جدھر جائیے آپ

میں دکھاؤں جو جنوں کی ہے صفت
شان بے رحمی کی دکھلائیے آپ

ٹکڑے ٹکڑے میں گریباں کے کروں
پرزے پرزے مرے آڑائیے آپ

شاد ہو روح اگر بعد فنا
شمع و گل گور پہ بھجوائیے آپ

جان صدقے کروں کیا مال ہے جان
کاٹ دوں سر کو جو فرمائیے آپ

منہ پہ منہ رکھا تو بولے کیا خوب
پہلے منہ اپنا تو بنوایئے آپ

غیر کٹنے لگیں بندھ جائے ہوا
مجھ سے تکل اگر اڑوائیے آپ

نام تک لوں نہ کبھی ہوں وہ بشر
اب اگر حور بھی بن جائیے آپ

ہاتھ سے رندؔ کو کھوتے ہو عبث
کہیں ایسا نہ ہو پچھتائیے آپ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse