آج آرائش گیسوئے دوتا ہوتی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آج آرائش گیسوئے دوتا ہوتی ہے
by اکبر الہ آبادی

آج آرائش گیسوئے دوتا ہوتی ہے
پھر مری جان گرفتار بلا ہوتی ہے

شوق پابوسیٔ جاناں مجھے باقی ہے ہنوز
گھاس جو اگتی ہے تربت پہ حنا ہوتی ہے

پھر کسی کام کا باقی نہیں رہتا انساں
سچ تو یہ ہے کہ محبت بھی بلا ہوتی ہے

جو زمیں کوچۂ قاتل میں نکلتی ہے نئی
وقف وہ بہر مزار شہدا ہوتی ہے

جس نے دیکھی ہو وہ چتون کوئی اس سے پوچھے
جان کیوں کر ہدف تیر قضا ہوتی ہے

نزع کا وقت برا وقت ہے خالق کی پناہ
ہے وہ ساعت کہ قیامت سے سوا ہوتی ہے

روح تو ایک طرف ہوتی ہے رخصت تن سے
آرزو ایک طرف دل سے جدا ہوتی ہے

خود سمجھتا ہوں کہ رونے سے بھلا کیا حاصل
پر کروں کیا یوں ہی تسکین ذرا ہوتی ہے

روندتے پھرتے ہیں وہ مجمع اغیار کے ساتھ
خوب توقیر مزار شہدا ہوتی ہے

مرغ بسمل کی طرح لوٹ گیا دل میرا
نگہ ناز کی تاثیر بھی کیا ہوتی ہے

نالہ کر لینے دیں للّٰلہ نہ چھیڑیں احباب
ضبط کرتا ہوں تو تکلیف سوا ہوتی ہے

جسم تو خاک میں مل جاتے ہوئے دیکھتے ہیں
روح کیا جانے کدھر جاتی ہے کیا ہوتی ہے

ہوں فریب ستم یار کا قائل اکبرؔ
مرتے مرتے نہ کھلا یہ کہ جفا ہوتی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse