آتی تھی پہلے دل سے کبھی بو کباب کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آتی تھی پہلے دل سے کبھی بو کباب کی
by ریاض خیرآبادی

آتی تھی پہلے دل سے کبھی بو کباب کی
روشن ہے اب تو سینے میں بھٹی شراب کی

اتنا عتاب سرخ ہے رنگت نقاب کی
تار نقاب ہیں کہ نگاہیں عتاب کی

دیکھے کوئی جھلک نہ رخ لا جواب کی
ستر ہزار پردوں میں ٹھہری حجاب کی

کیوں حشر میں ہو فکر عذاب و ثواب کی
صحبت ہے یہ بھی ایک شراب و کباب کی

کہتے ہیں وعدہ رات کو ہوگا وفا ضرور
اللہ جلد شام ہو روز حساب کی

بجلی وہ چیز ہی نہیں جس سے حسیں ڈریں
کچھ درد کی چمک ہے جھلک اضطراب کی

وہ شام و صبح صدقے ہو جن پر بہار گل
چن چن کے ساتھ لائے ہیں راتیں شباب کی

جنت کے خواب دیکھ کے آتی ہیں ہم کو یاد
رندانہ صحبتیں وہ کباب و شراب کی

آئینہ دیکھتے ہیں مجھے دیکھ دیکھ کر
یہ داد مل رہی ہے مرے انتخاب کی

لے اپنے سر وبال نہ اوروں کا حشر میں
بار گنہ اٹھائے نہ میزاں حساب کی

اے طور سوز برق سمجھتے ہیں ہم تجھے
تجھ میں تو شوخیاں ہیں کسی کے حجاب کی

دعوے ہے ہمسری کا سر کج کلاہ سے
اے دست موج اتار لے ٹوپی حباب کی

بجلی گرائیں طور پر آواز ہی سے وہ
ٹھہرے کبھی تو ہم سے سوال و جواب کی

پھر بھی تو کچھ ثبات کو اس کے ضرر نہیں
الٹی رواں ہے بحر میں کشتی حباب کی

مے سے کہیں سوا ہے پس توبہ مے کشو
آ جائے دور ہی سے کہیں بو شراب کی

سو حشر نذر گوشۂ داماں ہیں ہر نفس
اے شوق دید حد ہی نہیں اضطراب کی

تلخی کا نزع کی تو کچھ احساس ہو سکے
اتنی تو میرے منہ میں ہو تلخی شراب کی

تم کیا ہو ہم نے قلقل مینا سے واعظو
باتیں بہت سنی ہیں عذاب و ثواب کی

دور مے کہن کا اثر ہے یہ اے ریاضؔ
ہے آج بھی جوان طبیعت جناب کی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse