آتش عشق بلا آگ لگائے نہ بنے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آتش عشق بلا آگ لگائے نہ بنے
by پنڈت جگموہن ناتھ رینا شوق

آتش عشق بلا آگ لگائے نہ بنے
اور ہم اس کو بجھائیں تو بجھائے نہ بنے

رنگ رخ اڑنے پہ آج جائے تو روکے نہ رکے
لاکھ وہ راز چھپائیں تو چھپائے نہ بنے

کیا مزہ ہو نہ رہے یاد جو انداز جفا
میں کہوں بھی کہ ستاؤ تو ستائے نہ بنے

خود وفا ہے مری شاہد کہ وفادار ہوں میں
لاکھ تم دل سے بھلاؤ تو بھلائے نہ بنے

دل کے ہر ذرہ میں ہے سوز محبت کی نمود
خاک میں ان کو ملاؤں تو ملائے نہ بنے

راہ الفت نے کچھ ایسی مری صورت بدلی
دامن دشت چھپائے تو چھپائے نہ بنے

دل کو اب تاب تلافی و مداوا ابھی نہیں
چارہ گر آئے تو احسان اٹھائے نہ بنے

کوئی خاکہ مری تصویر کا کھینچے تو سہی
کھنچ بھی جائے کوئی نقشہ تو مٹائے نہ بنے

موت قابو کی نہیں اور نہ ٹھکانا اس کا
کوئی وقت اس پہ بھی آئے کہ بنائے نہ بنے

ایسے ڈھب سے ہو گلا ان کی ستم کا اے شوقؔ
بات کچھ چاہیں بنانی تو بنائے نہ بنے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse