آتش حسن سے اک آب ہے رخساروں میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آتش حسن سے اک آب ہے رخساروں میں
by مضطر خیرآبادی

آتش حسن سے اک آب ہے رخساروں میں
اے تری شان کہ پانی بھی ہے انگاروں میں

دم نکل جائے گا رخصت کا ابھی نام نہ لو
تم جو اٹھے تو بٹھا دوں گا عزاداروں میں

جا کے اب نار جہنم کی خبر لے زاہد
ندیاں بہہ گئیں اشکوں کی گنہ گاروں میں

نوبتیں نالۂ رخصت کا پتا دیتی ہیں
ماتم عشق کی آواز ہے نقاروں میں

مجھ کو اس درد کی تھوڑی سی کسک ہے درکار
جو دوا بن کے بٹا ہے ترے بیماروں میں

بے طلب اس نے دکھایا رخ روشن مضطرؔ
نام موسیٰ کا نہیں اس کے طلب گاروں میں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse