آتش تب نے کی ہے تاب شروع

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آتش تب نے کی ہے تاب شروع
by قائم چاندپوری

آتش تب نے کی ہے تاب شروع
تو بھی کر دیدۂ پر آب شروع

کیوں نہ ابتر ہو آنسوؤں سے چشم
کی ہے لڑکوں نے یہ کتاب شروع

شب میں چاہا کروں کچھ اس سے سوال
بن سنے ہی کیا جواب شروع

سرفۂ خشک بھی ہے اک حیلہ
کرنی زاہد کو تھی شراب شروع

نام سنتے ہی اس کا بس قائمؔ
پھر کیا تو نے اضطراب شروع

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse