آتش باغ ایسے بھڑکی ہے کہ جلتی ہے ہوا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آتش باغ ایسے بھڑکی ہے کہ جلتی ہے ہوا
by امداد علی بحر

آتش باغ ایسے بھڑکی ہے کہ جلتی ہے ہوا
کوچۂ گل سے دھواں ہو کر نکلتی ہے ہوا

سوز وحشت میں دھویں کی شکل کاہش ہے مجھے
میں ہوا کھاتا نہیں مجھ کو نگلتی ہے ہوا

دم اگر نکلا بدن سے پھر بڑی تسکین ہے
خاک پتھر ہو کے جمتی ہے جو ٹلتی ہے ہوا

گریۂ عشاق سے کیچڑ ہے ایسے جا بجا
تھام کر دیوار و در گلیوں میں چلتی ہے ہوا

جا بجا مجھ کو لیے پھرتی ہے دنیا کی ہوس
بیٹھ جاتا ہے بگولا جب نکلتی ہے ہوا

گلشن عالم کی نیرنگی سے ہوتا ہے یقیں
پھر شگوفہ پھولتا ہے پھر بدلتی ہے ہوا

ہیں بھی آہیں تو منہ سے باہر آتا ہے جگر
ذرے کو روزن سے اکثر لے نکلتی ہے ہوا

نازکی میں شاخ گل ہے سرو بالا یار کا
جھونکے لیتا ہے جو آہستہ بھی چلتی ہے ہوا

خاک اڑتی ہی جو اس کے پاؤں سے گل گشت میں
پھولوں کے منہ پر بجائے غازہ ملتی ہے ہوا

دیکھیے چل کر ذرا کیفیت جوش بہار
جھومتے ہیں پیڑ گر گر کر سنبھلتی ہے ہوا

نارسائی دیکھنا اڑتا ہے جب میرا غبار
یار کے کوٹھے کے کانس سے پھسلتی ہے ہوا

گرمیوں میں سیر گلزاروں کی بھاتی ہے مجھے
ہر قدم پر پنکھیا پھولوں کی جھلتی ہے ہوا

خار کہتے ہیں اٹھا کر انگلیاں گل کی طرف
پھول جاتے ہیں وہ کیسا جن کو پھلتی ہے ہوا

سرو قرطاس مقرض ہوں میں اس گلزار میں
خاک میں پانی ملاتا ہے مسلتی ہے ہوا

بحرؔ پنکھا ہاتھ سے رکھ دو نہایت زار ہوں
موج دریا کی طرح مجھ کو کچلتی ہے ہوا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse