آب حیات/میر عبدالحی تاباں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

ان کے عہد میں میر عبدالحیی تاباں تخلص ایک شریف زادہ حُسن و کوبی میں اس قدر شہرہ آفاق تھا کہ خاص و عام اس کو یوسف ثانی کہتے تھے، گوری رنگت پر کالے کالے کپڑے بہت زیب دیتے تھے، اس لئے ہمیشہ سیاہ پوش رہتا تھا۔ اس کے حُسن کی یہاں تک شہرت پھیلی کہ بادشاہ کو بھی دیکھنے کا اشتیاق ہوا۔ معلوم ہوا کہ مکان حبش خاں کے پھاٹک میں ہے اور وہ بڑا دروازہ جو کوچہ مذکور سے بازار لاہوری دروازہ میں نکلتا ہے، اس کے کوٹھے پر نشست ہے۔ زمانہ کی تاثیر اور وقت کے خیالات کو دیکھنا چاہیے کہ بادشاہ خود سوار ہو کر اس راہ سے نکلے، انھیں بھی خبر ہو گئی تھی، بنے سنورے اور بازار کی طرف موڈھا بچھا کر آ بیٹھے۔ بادشاہ جب اس مقام پر پہنچے تو اس لئے ٹھہرنے کا ایک بہانہ ہو وہاں آب حیات (شاہانِ دہلی کے کاروبار کے لئے الفاظ خاص مستعمل تھے، مثلاً پانی کو آب حیات، کھانے کو خاصہ، سونے کو سکھ فرمانا، شہزادوں کا پانی آبِ خاصہ اور اسی طرح ہزاروں اصلاحی الفاظ تھے۔) مانگا، اور پانی پی کر دیکھتے ہوئے چلے گئے، الغرض تاباں خود صاحبِ دیوان تھے، شاہ حاتم اور میر محمد علی حشمت کے شاگرد تھے اور مرزا صاحب کے مُرید تھے، مرزا صاحب بھی چشمِ محبت اور نگاہِ شفقت سے دیکھتے تھے چنانچہ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ مرزا صاحب بیٹھے ہیں اور اُن کی صحبت میں کہ جہاں کبھی وعظ و ارشاد اور کبھی نظم و اشعار کا جلسہ رہتا تھا :- تاباںؔ بھی حاضر ہیں اور با ادب اپنے مرشد کی خدمت میں بیٹھے ہیں۔ حضرت اگرچہ محفل ارشاد کے آداب سے گرمجوشی ظاہر نہ کرتے تھے، مگر معلوم ہوتا تھا کہ دیکھتے ہیں اور مارے خوشی کے باغ باغ ہوئے جاتے ہیں، تاباںؔ بھی مزاج داں تھے، اشعار اور لطائف نمکین کہتے، حضرت سُن سُن کر خوش ہوتے، کوئی بات سب کے سامنے کہنی خلافِ ادب ہوتی تو جو اہلِ عقیدت میں ادب کا طریقہ ہے اسی طرح دست بستہ عرض کرتے کہ کچھ اور بھی عرض کیا چاہتا ہوں، حضرت مسکرا کر اجازت دیتے، وہ کان کے پاس منھ لے جاتے اور چند کلمے چپکے چپکے ایسے گستاخانہ کہتے کہ سوا اس پیارے عزیز کے کوئی نہیں کہہ سکتا۔ جسے بزرگوں کی محبت نے گستاخ کیا ہو، پس حضرت مسکراتے اور فرماتے کہ درست ہے پھر وہ اسی قسم کی کچھ اور باتیں کہتے، پھر آپ فرماتے کہ یہ بالکل درست ہے۔ جب تاباں اپنی جگہ پر آ بیٹھتے تو حضرت خود کہتے کہ ایک بات کا تمھیں خیال نہیں رہا۔ تاباں پھر کان کے پاس منھ لے جاتے، اُس وقت سے بھی تیز تر کوئی لطیفہ آپ اپنے حق میں کہتے (ان باتوں پر اور خصوصاً اِن کے شعر پر تہذیب آنکھ دکھاتی مگر کیا کیجیے ایشیا کی شاعری کہتی ہے کہ یہ میری صفائی زبان اور طراری کا نمک ہے۔ پس یہ رُخ اگر خصوصیت زبان کو نہ ظاہر کرے تو اپنے فرض میں قاصر ہے یا بے خبر ہے۔) اور اپنے پیارے عزیز کی ہم زبانی کا لُطف حاصل کرتے۔نہایت افسوس ہے کہ وہ پھول اپنی بہار میں لہلہاتا گر پڑا (ہائے میری دلی تیری جو بات ہے جہاں سے نرالی ہے ) جب اس یوسف ثانی نے عین جوانی میں دلوں پر داغ دیا تو تمام شہر نے اس کا سوگ رکھا۔ میر تقی میر نے بھی اپنی ایک غزل کے مقطع میں کہا ہے :

داغ ہے تاباں علیہ الرحمہ کا چھاتی پہ میرؔ

ہو نجات اس کو بچارا ہم سے بھی تھا آشنا

مرزا صاحب کی تحصیل عالمانہ نہ تھی مگر علمِ حدیث کو با اصول پڑھا تھا۔ حنفی مذہب کے ساتھ نقشبندی طریقہ کے پابند تھے اور احکامِ شریعت کو صدق دل سے ادا کرتے تھے اور صناع و اطوار اور ادب آداب نہایت سنجیدہ اور برجستہ تھے کہ جو شخص ان کی صحبت میں بیٹھتا تھا ہوشیار ہو کر بیٹھتا تھا، لطافت مزاج اور سلامتی طبع کی نقلیں ایسی ہیں کہ آج سُن کر تعجب آتا ہے، خلافِ وضع اور بے اسلوب حالت کو دیکھ نہ سکتے تھے۔

نقل : ایک دن درزی ٹوپی سی کر لایا، اس کی تراش ٹیڑھی تھی۔ اس وقت دوسری ٹوپی موجود نہ تھی، اس لئے اسی کو پہنا مگر سر میں درد ہونے لگا۔

نقل : جس چارپائی میں کان ہو اس پر بیٹھا نہ جاتا تھا۔ گھبرا کر اُٹھ کھڑے ہوتے تھے، چنانچہ دلی دروازہ کے پاس ایک دن ہوادار میں سوار چلے جاتے تھے۔ راہ میں ایک بنیئے کی چارپائی کے کان پر نظر جا پڑی۔ وہیں ٹھہر گئے اور جب تک اس کا کان نہ نکلوایا آگے نہ بڑھے۔

نقل : ایک دن نواب صاحب کہ اِن کے خاندان کے مرید تھے ملاقات کو آئے اور خود صراحی لے کر پانی پیا، اتفاقاً آبخورا جو رکھا تو ٹیڑھا، مرزا کا مزاج اس قدر برہم ہوا کہ ہرگز ضبط نہ ہو سکا اور بگڑ کر کہا، عجب بے وقوف احمق تھا جس نے تمھیں نواب بنا دیا، آبخورا بھی صراحی پر رکھنا نہیں آتا۔

مولوی غلام یحییٰ فاضل جلیل، جنھوں نے میر زاہد پر حاشیہ لکھا ہے، کہ بہدایت غیبی مرزا ے مُرید ہونے کو دلی میں آئے، ان کی ڈاڑھی بہت بڑی اور گھن کی تھی، جمعہ کے دن جامع مسجد میں ملے اور ارادہ ظاہر کیا، مرزا نے ان کی صورت کو غور سے دیکھا اور کہا کہ اگر مجھ سے آپ بیعت کیا چاہتے ہیں تو پہلے ڈاڑھی ترشوا کر صورت بھلے آدمیوں کی بنائیے پھر تشریف لائیے۔ اللہُ جَمیلٌ و یُحِبُ الجَلٌ و یُحِبُ الجَمَال۔ بھلا یہ ریچھ کی صورت مجھ کو اچھی نہیں معلوم ہوتی تو خدا کو کب پسند آئے گی۔ ملا متشرع آدمی تھے، گھر میں بیٹھ رہے، تین دن تک برابر خواب میں دیکھا کہ بغیر مرزا کے تمھارا عقدہ دل نہ کھلے گا، آخر بیچارے نے ڈاڑھی حجام کے سپرد کی اور جیسا خشخاشی خط مرزا صاحب کا تھا ویسا ہی رکھ کر مریدوں میں داخل ہوئے۔

اسی لطافت مزاج اور نزاکت طبع کا نتیجہ ہے کہ زبان کی طرف توجہ کی اور اسے تراشا کہ جو شعر پہلے گزرے تھے، انھیں پیچھے ہی چھوڑ کر اپنے عہد کا طبقہ الگ کر دیا اور اہل زبان کو نیا نمونہ تراش کر دیا، جس سے پرانا رستہ ایہام گوئی کا زمین شعر سے مٹ گیا۔ ان کے کلام میں مضامین عاشقانہ عجب تڑپ دکھاتے ہیں اور یہ مقامِ تعجب نہیں، کیوں کہ وہ قدرتی عاشق مزاج تھے، اوروں کے کلام میں یہ مضامین خیال ہیں، ان کے اصل حال (افسوس ہے اہل وطن کے خیالات پر جنھوں نے ایسی ایسی لطافت طبع کی باتیں دیکھ کر ازروئے اعتقاد آخر میں ایک طرہ اور بڑھایا یعنی قاتل ہم جوانے صبیح و ملیح بود کہ بدستش جان سپروند یا شاید ایسا ہی، عالم الغیب خدا ہے۔) زبان ان کی نہایت صاف و شستہ و شفاف ہے، اس وقت کے محاورہ کی کیفیت کچھ ان کے اشعار سے اور کچھ اُس گفتگو سے معلوم ہو گی جو ایک دفعہ بر وقتِ ملاقات ان سے اور سید انشاء سے ہوئی، چنانچہ اصل عبارت دریائے لطافت سے نقل کی جاتی ہے۔

سید انشاء اللہ خاں اور مرزا جانجاناں مظہرؔ کی ملاقات


درزمانیکہ راقم مذنب ہمراہ والد مرحوم مغفور وارد دار الخلافہ بود، ازبسکہ آوازہ فصحاحت و بلاغت جناب فیض مآب مرزا جانجاناں مظہرؔ علیہ الرحمتہ گوش راقم را مقرر خود داشت دل بادیدہ مستعد سکیزہ شد کہ چرا از دیدارِ مرزا صاحب خودرا ایں ہمہ محروم مے پسندی و مرا از لذتِ جاودانی و عیش روحانی کہ در کلامِ معجز نظام آنحضرت است، باز میداری چار و ناچار خط تراش واوہ جامہ ململ ڈھاکہ پوشیدہ و ستارِ سُرخ، برسرگزاشتم و دیگر لباس ہم ازیں قبیل و از سلاح انچہ باخود گرفتم کٹار بسیار خو بے بود کہ بکمرزدہ بودم، بایں ہئیت بسواری فیل روانہ خدمت سراپا افادت ایشاں شدم، چوں بالائے بام کہ کیول رام بانیہ متصل جامع مسجد ساختہ پیش کش مرزا صاحب کردہ بود برآمدم، دیدم کہ جناب معری الیہ با پیرہن و کلاہِ سفید دو دوپٹہ ناشپاتی رنگ بصورت سموسہ بردوش گزاشتہ نشستہ اندبکمالِ ادب سلامے برایشاں کردم، از فرطِ عنایت و کثرتِ مکارمِ اخلاق کہ شیوہ ستودہ بزرگانِ خدا پرست است بجواب سلام ملتفت شدہ برخاستند دوسرِایں بے لیاقت رادر کنار گرفتہ بہ پہلوئے خود جا داوند۔ (اس صحبت میں جو گفتگو ہوئی صفحہ میں لکھی گئی ہے۔) مرزا صاحب کا ایک دیوان فارسی ہے کہ خود ۶۰ برس کی عمر ۱۱۷۰ھ میں بیس (۲۰) ہزار شعر میں سے ایک ہزار شعر انتخاب کیا تھا۔ اسی واسطے اکثر غزلیں ناتمام اور بے ترتیب ہیں، اس کو انتہائی درجہ کی منصفی اور سلامتی طبع سمجھنا چاہیے ورنہ اپنے اشعار کہ اولادِ معنوی ہوتے ہیں، کس کا جگر ہے کہ اپنے ہاتھ سے کاٹے، فارسی بھی بہت شُستہ ہے اور مضامینِ عاشقانہ ایک انداز کے ساتھ بندھے ہیں۔

مراچہ جرم کہ ہر نالہ ام رموز دنی

غلط کنند عزیزاں بمصرعہ اُستاد

اُردو میں بھی پورا دیوان نہیں، غزلیں اور اشعار ہیں جو سوداؔ اور میرؔ کی زبان ہے وہی اُن کی زبان ہے لیکن سوداؔ بھلا کسے خاطر میں لاتے تھے، چنانچہ سب آداب اور رعایتوں کو بالائے طاق رکھ کر فرماتے ہیں :

مظہرؔ کا شعر فارسی اور ریختہ کے بیچ

سوداؔ یقین جان کہ روڑا ہے باٹ کا

آگاہِ فارسی تو کہیں اِس کو ریختہ

واقف جو ریختہ کے ذرا ہووے ٹھاٹھ کا

سُن کر وہ یہ کہے کہ نہیں ریختہ ہے یہ

اور ریختہ بھی ہے تو فیروز شہ (فیروز شاہ) کی لاٹھ کا

القصہ اس کا حال یہی ہے جو سچ کہوں

کتا ہے دھوبی کا کہ نہ گھر کا نہ گھاٹ کا

(نقطہ اس میں یہ ہے کہ مرزا صاحب نے ایک دھوبن گھر میں ڈال لی تھی)

خریطہ جواہر : ایک مختصر انتخاب اساتذہ فارس کے اشعار کا ہے کہ اپنی پسند کے بموجب لکھے گئے تھے، وہ حقیقت میں خریطہ جواہر ہے۔

جب (اکثر حالات اور سال تاریخ وغیرہ معمولات مظہری سے لیے گئے۔) کہ صحرائے فنا میں ۷۹ منزلیں عمر کی طے کر ۸۰ میں قدم رکھا تو دل کو آگاہی ہونے لگی کہ اب روح کا مسافر بدن کا بوجھ پھینکا چاہتا ہے، چنانچہ خود اکثر تحریروں اور تقریروں میں صاف صاف اظہار کرتے تھے۔

ایک معتقد کا بیٹا حسن اعتقاد سے غزل لے کر آیا کہ شاد ہو اور اصلاح لے۔ انھوں نے کہا کہ اصلاح کے ہوش و حواس کسے ہیں اب عالم کچھ اور ہے۔ عرض کی کہ میں بطور تبرک سعادت حاصل کرنی چاہتے ہوں، فرمایا کہ اس وقت ایک شعر خیال میں آیا ہے، اسی کو تبرک اور اسی کو اصلاح سمجھ لو۔

لوگ کہتے ہیں مر گیا مظہرؔ

فی الحقیقت میں گھر گیا مظہرؔ

غرض ساتویں محرم کی تھی کہ رات کے وقت ایک شخص مٹھائی کی ٹوکری ہاتھ میں لئے آیا، دروازہ بند تھا، آواز دی اور ظاہر کیا کہ مُرید ہوں، نذر لے کر آیا ہوں۔ وہ باہر نکلے تو قرابین (استاد مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ گاڑے کا نشان ہم نے بھی دیکھا ہے۔ کیول رام کے کوٹھے پر ڈیوڑھی کی دیوار میں اب تک موجود تھا۔) ماری کہ گولی سینہ کے پار ہو گئی، وہ بھاگ گیا۔ مگر انھیں زخم کاری آیا، تین دن تک زندہ رہے۔ اس عالمِ اضطراب میں لوٹتے تھے اور اپنا ہی شعر پڑھتے تھے۔

بنا کردند خوش رسمے بخون و خاک غلطیاں

خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را

یہ تین دن نہایت استقلال اور ثابت قدمی سے گزارے بلکہ جب شاہ عالم بادشاہ کو خبر پہنچی تو بعد تحقیقات کے کہلا بھیجا کہ قاتل نہیں ملتا، نشان بتائیے تو ہم اسے سزا دیں۔ جواب میں کہا کہ فقیر کشتہ راہِ خدا ہیں اور مردہ کا مارنا قتل نہیں۔

قاتل ملے تو آپ سزا نہ دیں، یہاں بھیج دیں، آخر دسویں کو شام کے وقت دنیا سے انتقال کیا، بہت لوگوں نے تاریخیں کہیں، مگر درجہ اول پر میر قمر الدین منتؔ کی تاریخ ہے جس کا مادہ خاص الفاظِ حدیث ہیں اور اتفاق یہ کہ موزوں ہیں عاش حمیدا، مات شھیدًا۔ اِس قتل کا سبب دلی کے خاص و عام میں مشہور تھا کہ بموجب رسم کے ساتویں کو علم اُٹھے تھے یہ سرِ راہ اپنے بالا خانہ پر خاص خاص مریدوں کو لئے بیٹھے تھے جیسا کہ عوام جہلا کی عادت ہے شاید طرفین سے کچھ کچھ طعن و تعریض ہوئے ہوں، وہ کسی جاہل کو ناگوار ہوئے اُن میں کوئی سنگ دل قول و خال نام سخت جاہل تھا، اُس نے یہ حرکت کی، لیکن حکیم قدرت اللہ قاسمؔ اپنے تذکرہ میں فرماتے ہیں کہ مرزا صاحب اپنے کلام میں اکثر اشعار حضرت علی کی مدح میں کہا کرتے تھے، اس پر بگڑ کر کسی سُنی نے یہ حرکت کی۔

نہ کرمظہرِ باطاعتے و رفت بخاک

نجات خود بہ تو لائے بوتراب گذاشت

(عجب مشکل ہے حکیم صاحب بھی ایک خوش اعتقاد سنت جماعت تھے۔ وہ کہتے ہیں سُنی نے مارا، لوگ کہتے ہیں شیعہ نے مارا۔ خیر شیعہ سُنی آپس میں سمجھ لیں۔ میرا کام اتنا ہی تھا جو کچھ پایا کاغذ کے حوالہ کیا۔)

جد مرحوم ایک اُردو کا شعر اُن کے نام سے پڑھا کرتے تھے۔

ہوں تو سُنی پہ علی کا صدق دل سے ہوں غُلام

خواہ ایرانی کہو تم خواہ تورانی مجھے

دلی میں پتلی قبر کے پاس گھر ہی میں دفن کر دیا تھا کہ اب خانقاہ کہلاتی ہے۔ قبر پر انہی کا شعر لکھا ہے :

بلوحِ تُربت من یافتند از غیب تحریر ہے

کہ ایں مقتول راجز بیگناہی نیست تقصیرے

تاریخ مرزا رفیع سودا نے بھی کہی :

مرزا کا ہوا جو قاتل ایک مرتدِ شوم

اور اِن کی ہوئی خبر شہادت کی عموم

تاریخ ازروئے، درد، یہ سن کے کہی

سوداؔ نے کہ ہائے جانِ جاناں (۱۱۹۵) مظلوم

اس لکھنے سے مجھے اظہار اس امر کا منظور ہے کہ ہجو ہمارے نظم کی ایک خاردار شاخ ہے جس کے پھل سے پھول تک بے لطفی بھری ہے اور اپنی زمین اور دہقان دونوں کی کثافتِ طبع پر دلالت کرتی ہے۔ چنانچہ اس میں بھی مرزا رفیع مرحوم سب سے زیادہ بدنام ہیں، لیکن حق یہ ہے کہ ان کی زبان سے جو کچھ نکلتا تھا باعث اُس کا یا فقط شوخی طبع یا کوئی عارضی جوش ناراضی کا ہوتا تھا اور مادہ کثافت فقط اتنا ہوتا تھا کہ جب الفاظ کاغذ پر آ جاتے تھے تو دل صاف ہو جاتا تھا۔ (دیکھو سوداؔ کے حال میں ان کا اور مرزا فاخر یکینؔ کا جھگڑا صفحہ اور سید انشاء کے حال میں مشاعرہ دلی کا معرکہ۔) چنانچہ تاریخ مذکور کے الفاظ دل کی صفائی کا حال ظاہر کرتے ہیں۔ ہمارا زمانہ ایسے مہذب اور شائستہ لوگوں سے آراستہ ہے کہ لفظ ہجو کو گالی سمجھتے ہیں مگر دلوں کا مالک اللہ ہے۔

اِن کے شاگردوں میں میر محمد باقر حزیں، بساون لال بیدارؔ، کواجہ احسن اللہ خاں بیانؔ، انعام اللہ خاں یقینؔ، مشہور صاحبِ دیوان اور اچھے شاعر ہوئے، ان کی غزلیں تمام و کمال نہ ملیں، جو کچھ سرِ دست حاضر تھا درج کیا۔

چلی اب گل کے ہاتھوں سے لُٹا کر کارواں اپنا

نہ چھوڑا ہائے بلبل نے چمن میں کچھ نشاں اپنا

یہ حسرت رہ گئی کیا کیا مزے کی زندگی کٹتی

اگر ہوتا چمن اپنا، گل اپنا، باغباں اپنا

الم سے یاں تلک روئیں کہ آخر ہو گئیں رسوا

ڈبایا ہائے آنکھوں نے مژہ کا خاندان اپنا

رقیباں کی نہ کچھ تقصیر ثابت ہے نہ خوباں کی

مجھے ناحق ستاتا ہے یہ عشقِ بدگماں اپنا

مرا جی جلتا ہے اِس بلبلِ بیکس کی غُربت پر

کہ جن نے آسرے پر گل کے چھوڑا آشیاں اپنا

جو تو نے کی سو دشمن بھی نہیں دشمن سے کرتا ہے

غلط تھا جانتے تھے تجھ کو جو ہم مہرباں اپنا

کوئی آزردہ کرتا ہے سجن اپنے کو ہے ظالم

کہ دولت خواہ اپنا مظہر اپنا جانجاں اپنا

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

گرچہ الطاف کے قابل یہ دلِ زار نہ تھا

لیکن اِس جور و جفا کا بھی سزا وار نہ تھا

لوگ کہتے ہیں ہوا مظہرِ بے کس افسوس

کیا ہوا اس کو وہ اتنا بھی تو بیمار نہ تھا

جواں مارا گیا خوباں کے بدلے میرزا مظہرؔ

بھلا تھا یا بُرا تھا، زور کچھ تھا خوب کام آیا

ہم نے کی ہے توبہ اور دھومیں مچاتی ہے بہار

ہائے بس چلتا نہیں کیا مفت جاتی ہے بہار

لالہ و گل نے ہماری خاک پر ڈالا ہے شور

کیا قیامت ہے موؤں کو بھی ستاتی ہے بہار

شاخ گل ہلتی نہیں یہ بلبلوں کو باغ میں

ہاتھ اپنے کے اشارہ سے بلاتی ہے بہار

ہم گرفتاروں کو اب کیا کام ہے گلشن سے لیک

جی نکل جاتا ہے جب سُنتے ہیں آتی ہے بہار

یہ دل کب عشق کے قابل رہا ہے

کہاں اِس کو دماغ و دل رہا ہے

خدا کے واسطے اِس کو نہ ٹوکو

یہی اک شہر میں قاتل رہا ہے

نہیں آتا اسے تکیہ پہ آرام

یہ سر پاؤں سے تیرے ہل رہا ہے

اگر ملئے تو خفت ہی دگر دوری قیامت ہے

غرض نازک دماغوں کو محبت سخت آفت ہے

کوئی لیوے دل اپنے کی خبر یا دلبر اپنے کی

کسی کا یار جب عاشق کہیں ہو کیا قیامت ہے

توفیق دے کہ شور سے اک دم تو چپ رہے

آخر مرا یہ دل ہے الٰہی جرس نہیں

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*