آب حیات/ملک الشعراء خاقانی ہند شیخ ابراہیم ذوق

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

جب وہ صاحب کمال عالم ارواح سے کشور اجسام کی طرف چلا تو فصاحت کے فرشتوں نے باغ قدس کے پھولوں کا تاج سجایا جن کی خوشبو شہر عام بن کر جہاں میں پھیلی اور رنگ نے بقائے دوام سے آنکھوں کو طراوت بخشی۔ وہ تاج سر پر رکھا گیا تو آب حیات اس پر شبنم ہو کر برسا کہ شادابی کو کمہلاہٹ کا اثر نہ پہنچے۔ ملک الشعرانی کا سِکہ اس کے نام سے موزوں ہوا اور اس کے طغرائے شاہی میں یہ نقش ہوا کہ اس پہ نظم اردو کا خاتمہ کیا گیا۔ چناں چہ اب ہرگز امید نہیں کہ ایسا قادر الکلام پھر ہندوستان میں پیدا ہو۔ سبب اس کا یہ ہے کہ جس باغ کا بلبل تھا وہ باغ برباد ہو گیا نہ ہمصفیر رہے نہ ہم دوستاں رہے، نہ اس بولی کے سمجھنے والے رہے جو خراب آباد اس زبان کے لئے ٹکسال تھے وہاں بھانت بھانت کا جانور بولتا ہے، شہر چھاونی سے بدتر ہو گیا۔ امراء کے گھرانے تباہ ہو گئے، گھرانوں کے وارث علم و کمال کے ساتھ روٹی سے محروم ہو کر حواس کھو بیٹھے، وہ جادو کار طبیعتیں کہاں سے آئیں جو بات بات میں دل پسند انداز اور عمدہ تراشیں نکالتی تھیں، آج جن لوگوں کو زمانہ کی فارغ البالی نے اس قسم کے ایجاد و اختراع کی فرصتیں دی ہیں وہ اور اصل کی شاخیں۔ انھوں نے اور پانی سے نشو و نما پائی ہے۔ وہ اور ہی ہواؤں میں اڑ رہے ہیں۔ پھر اس زبان کی ترقی کا کیا بھروسہ۔ کیسا مبارک زمانہ ہو گا جب کہ شیخ مرحوم اور میرے والد مغفور ہم عمر ہونگے۔ تحصیل علمی ان کی عمروں کی طرح حالت طفولیت میں ہو گی۔ صرف و نحو کی کتابیں ہاتھوں میں ہوں گی اور ایک استاد کے دامن شفقت میں تعلیم پاتے ہوں گے۔ ان نیک نیت لوگوں کی ہر ایک بات استقلال کی بنیاد پر قائم ہوتی تھی، وہ رابطہ ان کا عمروں کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا اور اخیر وقت تک ایسا نبھ گیا کہ قرابت سے بھی زیادہ تھا۔ ان کے تحریر حالات بعض باتوں کے لکھنے کو لوگ فضول سمجھیں گے مگر کیا کروں جی یہی چاہتا ہے کہ کوئی حرف اس گراں بہاں داستان کا نہ چھوڑوں۔ پہ اس سبب سے کہ اپنے پیارے اور پیار کرنے والے بزرگ کی ہر بات پیاری ہوتی ہے، ۔۔۔۔ نہیں! اس شعر کے تیلے کا ایک رونگٹا بھی بیکار نہ تھا۔ ایک صنعت کاری ۔۔۔۔ کل میں کون سے پرزے کہ کہہ سکتے ہیں کہ نکال ڈالو۔ یہ کام کا نہیں اور کون سی حرکت اس کی ہے جس سے حکمت زنگیز فائدہ نہیں پہنچتا ہے۔ اسی واسطے میں لکھوں گا اور سب کچھ لکھوں گا، جو بات ان کے سلسلہ حالات میں مسلسل ہو سکے گی ایک حرف نہ چھوڑوں گا۔ شیخ مرحوم کے والد شیخ محمد رمضان ایک غریب سپاہی تھے، مگر زمانہ کے تجربہ اور بزرگوں کی صحبت نے انھیں حالات زمانہ سے ایسا باخبر کیا تھا کہ ان کی زبانی باتیں کتب تاریخ کے قیمتی سرمائے تھے۔ وہ دلّی میں کابلی دروازہ کے پاس رہتے تھے اور نواب لطف علی خاں نے انھیں معتبر اور بالیاقت شخص سمجھ کر اپنی حرم سرا کے کاروبار سپرد کر رکھے تھے۔ شیخ علیہ الرحمۃ ان کے اکلوتے بیٹے تھے کہ ۱۲۰۴ ہجری میں پیدا ہوئے۔ اس وقت کسے خبر ہو گی کہ اس رمضان سے وہ چاند نکلے گا جو آسمانِ سخن پر عید کا چاند ہو کر چمکے گا۔ جب پڑھنے کے قابل ہوئے تو حافظ غلام رسول نامی ایک شخص بادشاہی حافط ان کے گھر کے پاس رہتے تھے۔ محلے کے اکثر لڑکے انہی کے پاس پڑھتے تھے۔ انھیں بھی وہیں بٹھا دیا۔

حافظ غلام رسول شاعر بھی تھے، شوق تخلص کرتے تھے۔ نمونہ کلام یہ ہے :

مزا انگور کا ہے رنگترے میں
عسل زنبور کا ہے رنگترے میں

ہیں اثماء ہلالی اس کی پھانکیں
یہ مضموں دور کا ہے رنگترے میں

نہیں ہے اس کی پھانکوں میں یہ زیرا
یہ لشکر مور کا ہے رنگترے میں

ہے گلگونِ مجسم یا بھرا خون
کسی مہجور کا ہے رنگترے میں

مزاج اب جس کا صفراوی ہے اے شوقؔ
دل اس رنجور کا ہے رنگترے میں

  • -*-*-*-*-*-*


لکھا ہوا ہے تھا یہ اس مہ جبیں کے پردے پر
نہیں ہے کوئی اب ایسا زمیں کے پردے پر

کزلکِ مژگاں چشم ستمگر آ کے جگر میں کُھوپ چلی
آہ کی ہمدم ساتھ ادھر سے جنگ کو اپنے دھوپ چلی

وعدہ کیا تھا شام کا مجھسے شوقؔ جنہوں نے کل دن کا
آج وہ آئے پاس مرے جب ڈیڑھ پہر کی توپ چلی

فاقے مست عدوے بد ایسا ہی چھٹی کا راجا ہے
نانی جس کی آئی چھٹی میں دھوم سے لیکر گھی کھچڑی

شیخ بگھارے شیخی اپنی مفت کے لقمے کھاتا ہے
دودھ ملیدا کھاتے ہیں یا مست قلندر گھی کھچڑی​

اگلے وقتوں کے لوگ جیسے شعر کہتے ہیں ویسے شعر کہتے تھے، محلہ کے شوقین نوجوان دلوں کی امنگ میں ان سے کچھ نہ کچھ کہلوا لے جایا کرتے تھے۔ اکثر اصلاح بھی لیا کرتے تھے۔ غرض ہر وقت ان کے ہاں یہی چرچا رہتا تھا، شیخ مرحوم خود فرماتے تھے کہ وہاں سنتے سنتے مجھے بہت شعر یاد ہو گئے۔ نظم کے پرھنے اور سننے میں دل کو ایک روحانی لذت حاسل ہوتی تھی اور ہمیشہ اشعار پڑھتا پھرا کرتا تھا، دل میں شوق تھا اور خدا سے دعائیں مانگتا تھا کہ الہٰی مجھے شعر کہنا آ جائے۔ ایک دن خوشی میں آ کر خود بخود میری زبان سے دو شعر نکلے اور یہ فقط حسن اتفاق تھا کہ ایک حمد میں تھا، ایک نعت میں۔ اس عمر میں مجھے اتنا ہوش تو کہاں تھا کہ اس مبارک مہم کو خود اس طرح سمجھ کر مشروع کرتا کہ پہلا حمد میں ہو، دوسرا نعت میں ہو۔ جب یہ بھی خیال نہ تھا کہ اس قدرتی اتفاق کو مبارک فال سمجھوں۔ مگر اُن دو شعروں کے موزوں ہو جانے سے جو خوشی دل کو ہوئی، اُس کا مزہ ابتک نہیں بھولتا۔ انھیں کہیں اپنی کتاب میں کہیں جابجا کاغذوں پر رنگ برنگ کی روشنائیوں سے لکھتا تھا۔ ایک ایک کو سُناتا تھا اور خوشی کے مارے پھولوں نہ سماتا تھا، غرض کہ اسی عالم میں کچھ نہ کچھ کہتا رہا اور حافظ جی سے اصلاح لیتا رہا۔

اسی محلہ میں میر کاطم حسین نامی ایک ان کے ہم سن ہم سبق تھے کہ نواب سید رضی خاں مرحوم کے بھانجے تھے۔ بے قرارؔ تخلص کرتے تھے اور حافظ غلام رسول ہی سے اصلاح لیتے تھے، مگر ذہن کے جودت اور طبیعت کی براقی کا یہ عالم تھا کہ کبھی برق تھے اور کبھی باد و باراں، انھیں اپنے بزرگوں کی صحبت میں تحصیل کمال کے لئے اچھے اچھے موقع ملتے تھے۔ شیخ مرحوم اور وہ اتحاد طبعی کے سبب سے اکثر ساتھ رہتے تھے اور مشق کے میدان میں ساتھ ہی گھوڑے دوڑاتے تھے، انھیں دنوں کا شیخ مرحوم کا ایک مطلع ہے کہ نمونہ تیزی طبع کا دکھاتا ہے :

ماتھے پہ تیرے جھمکے ہے جھومر کا بڑا چاند

لا بوسہ چڑھے چاند کا وعدہ تھا چڑھا چاند​

ایک دن میر کاظم حسین نے غزل لا کر سُنائی، شیخ مرحوم نے پوچھا، یہ غزل کب کہی، خوب گرم شعر نکالے ہیں، انھوں نے کہا ہم تو شاہ نصیرؔ کے شاگرد ہو گئے، انھیں سے یہ اصلاح لی ہے۔ شیخ مرحوم کو بھی شوق پیدا ہوا، اور ان کے ساتھ جا کر شاگرد ہو گئے۔

سلسلے اصلاح کے جاری تھے، مشاعروں میں غزلیں پڑھی جاتی تھیں۔ لوگوں کی واہ وا طبیعتوں کو بلند پروازیوں کے پر لگاتی تھی کہ رشک جو تلامیذ الرحمٰن کے آئینوں کا جوہر ہے، استاد شاگردوں کو چمکانے لگا۔ بعض موقعوں پر ایسا ہوا کہ شاہ صاحب نے ان کی غزل کو بے اصلاح پھیر دیا اور کہا طبیعت پر زور ڈال کر کہو، کبھی کہہ دیا کہ یہ کچھ نہیں، پھر سوچ کر کہو، بعض غزلوں کو جو اصلاح دی تو اس سے بے پروائی پائی گئی۔ ادھر انھیں کچھ تو یاروں نے چمکا دیا، کچھ اپنی غریب حالت نے یہ آزردگی پیدا کی کہ شاہ صاحب اصلاح میں بے توجہی یا پہلو تہی کرتے ہیں چنانچہ اس طرح کئ دفعہ غزلیں پھیریں، بہت سے شعر کٹ گئے، زیادہ تر قباحت نہ ہوئی کہ شاہ صاحب کے صاحب زادے شاہ وحید الدین منیرؔ تھے، جو براقی طبع میں اپنے والد کے خلف الرشید تھے، ان کی غزلوں میں توارد سے یا خدا جانے کسی اتفاق سے وہی مضمون پائے گئے، اس لئے انھیں زیادہ رنج ہوا۔

منیرؔ مرحوم کو جس قدر دعوےٰ تھے اُس سے زیادہ طبیعت میں نوجوانی کے زور بھرے ہوئے تھے، وہ کسی شاعر کو خاطر میں نہ لاتے تھے، اور کہتے تھے کہ جس غزل پر ہم قلم اُٹھائیں اس زمین پر کون قدم رکھ سکتا ہے۔ مشکل سے مشکل طرحیں کرتے تھے اور کہتے تھے کہ کون پہلوان ہے جو اس نال کو اُٹھا سکے۔ غرض اُن سے اور شیخ مرحوم سے بمقتضائے سنِ اکثر تکرار ہو جاتی تھی اور مباحثے ہوتے تھے، ایک دفعہ یہاں تک نوبت پہونچی کہ شیخ علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ گھر کے کہے ہوئے شعر صحیح نہیں۔ شاید آپ اُستاد کہلوا لاتے ہوں گے، ہاں ایک جلسہ میں بیٹھ کر ہم اور آپ غزل کہیں، چنانچہ اس معرکہ کی منیر مرحوم کی غزل نہیں ملی، شیخ علیہ الرحمۃ کی غزل کا مطلع مجھے یاد ہے :

یاں کے آنے کا مقرر قاصد! وہ دن کرے

تو جو مانگے گا وہی دوں گا خدا وہ دن کرے​

اگرچہ اُن کی طبیعت حاضر و فکر رساء بندش چست اس پر کلام میں زور سب کچھ تھا مگر چونکہ یہ ایک غریب سپاہی کے بیٹے تھے نہ دنیا کے معاملات کا تجربہ تھا نہ کوئی ان کا دوست و ہمدرد تھا، اس لئے رنج اور دل شکستگی حد سے زیادہ ہوتی تھی، اسی قیل و قال میں ایک دن سوداؔ کی غزل پر غزل کہی، دوش نقش پا، شاہ صاحب کے پاس لے گئے، انھوں نے خفا ہو کر غزل پھینک دی کہ اُستاد کی غزل پر غزل کہتا ہے؟ اب تو مرزا رفیع سے بھی اونچا اُڑنے لگا۔ ان دنوں ایک جگہ مشاعرہ ہوتا تھا، اشتیاق نے بے قرار ہو کر گھر سے نکالا، مگر غزل بے اصلاح تھی، دل کے ہراس نے روک لیا کہ ابتدائے کار ہے، احتیاط شرط ہے، قریب شام افسردگی اور مایوسی کے عالم میں جامع مسجد میں آ نکلے، آثار شریعت میں فاتحہ پڑھی، حوض پر آئے، وہاں میر کلّو حقیرؔ بیٹھے تھے، چونکہ مشاعرہ کی گرم غزلوں نے روشناس کر دیا تھا، اور سنِ رسیدہ اشخاص شفقت کرنے لگے تھے، میر صاحب نے انھیں پاس بٹھایا اور کہا کہ کیوں میاں ابراہیم؟ آج کچھ مکدّر معلوم ہوتے ہو، خیر ہے؟ جو کچھ ملال دل پر تھا، انھوں نے بیان کیا، میر صاحب نے کہا کہ بھلا وہ غزلیں ہمیں سناؤ؟ انھوں نے غزل سنائی، میر صاحب کو اُن کے معاملہ پر درد آیا کہا کہ جاؤ بے تامل غزل پڑھ دو کوئی اعتراض کرے گا تو جواب ہمارے ذمہ ہے اور ہاتھ اُٹھا کر دیر تک اُن کے لئے دعا کرتے رہے، اگرچہ میر صاحب کا قدیمانہ انداز تھا، مگر وہ ایک کُہن سال شخص تھے، بڑے بڑے باکمال شاعروں کو دیکھا تھا اور مکتب پڑھایا کرتے تھے، اس لئے شیخ مرحوم کی کاطر جمع ہوئی اور مشاعرہ میں جا کر غزل پڑھی۔ وہاں بہت تعریف ہوئی، چنانچہ غزل مذکور یہ ہے :

رکھتا بہر قدم ہے وہ یہ ہوش نقشِ پا
ہو خاکِ عاشقاں نہ ہم آغوش نقشِ پا

اُفتادگاں کو بے سرو ساماں نہ جانیو
دامانِ خاک ہوتا ہے روپوشِ نقشِ پا

اعجاز پا سے تیرے عجب کیا کہ راہ میں
بول اُٹھے منھ سے ہر لب خاموش نقشِ پا

اس رو گذر میں کس کو ہوئی فرصت مقام
بیٹھے ہے نقش و پا یہ سر دوس نقشِ پا

جسمِ نزار خاک نشینان کوئے عشق
یوں ہے زمیں پہ جیسے تن و توشِ نقشِ پا

فیض برہنہ پائی مجنوں سے دشت میں
ہر آبلہ بنے ہے دُرِ گوشِ نقشِ پا​

پابوس درکنار کہ اپنی تو خاک بھی
پہونچی نہ ذوقؔ اس کے بہ آغوشِ نقشِ پا​

اُس دن سے جرات زیادہ ہوئی اور بے اصلاح مشاعرہ میں غزل پڑھنے لگے۔ اب کلام کا چرچا زیادہ تر ہوا، طبیعت کی شوخی اور شعر کی گرمی سننے والوں کے دلوں میں اثر برقی کی طرح دوڑنے لگی، اس زمانہ کے لوگ منصف ہوتے تھے، بزرگان پاک طینت جو اساتذہ سلف کی یادگار باقی تھے مشاعرہ میں دیکھتے تو شفقت سے تعریفیں کر کے دل بڑھاتے بلکہ غزل پڑھنے کے بعد آتے تو دوبارہ پڑھوا کر سُنتے، غزلیں اربابِ نشاط کی زبانوں سے نکل کر کوچہ و بازار میں رنگ اُڑانے لگیں۔

اکبر بادشاہ بادشاہ تھے، اُنھیں تو شعر سے کچھ رغبت نہ تھی مگر مرزا ابو ظفر ولی عہد کہ بادشاہ ہو کر بہادر شاہ ہوئے، شعر کے عاشق شیدا تھے اور ظفر تخلص سے ملک شہرت کو تسخیر کیا تھا اس لئے دربار شاہی میں جو جو کُہنہ مشق شاعر تھے مثلاً حکیم ثناء اللہ کاں فراقؔ، میر غالب علی خاں سیدؔ عبد الرحمٰن خاں، احسانؔ برہان الدین خاں زارؔ، حکیم قدرت اللہ خاں قاسمؔ، ان کے صاحبزادے حکیم عزت اللہ خاں عشقؔ، میاں شکیباؔ شاگرد میر تقی مرھوم، مرزا عظیم بیگ عظیم شاگرد سوداؔ، میر قمر الدین منتؔ۔ ان کے صاحبزادے میر نظام الدین ممنون وغیرہ سب شاعر ہیں، آ کر جمع ہوتے تھے، اپنے اپنے کلام سُناتے تھے۔ مطلع اور مصرع جلسہ میں ڈالتے تھے۔ ہر شخص مطلع پر مطلع کہتا تھا، مصرع پر مصرع لگا کر طبع آزمائی کرتا تھا، میر کاظم حسین بیقرارؔ، ولی عہد موصوف کے ملازم خاص تھے، اکثر ان صحبتوں میں شامل ہوتے تھے، شیخ مرحوم کو خیال ہوا کہ اس جلسہ میں طبع آزمائی ہوا کرے تو قوت فکر کی خوب بلند پروازی ہو۔ لیکن اس عہد میں کسی امیر کی ضمانت کے بعد بادشاہی اجازت ہوا کرتی تھی جب کوئی قلعہ میں جانے پاتا تھا۔ چنانچہ میر کاظم حسین کی وساطت سے یہ قلعہ میں پہونچے اور اکثر دربار ولی عہدی میں جانے لگے۔

شاہ نصیر مرحوم کہ ولی عہد کی غزل کو اصلاح دیا کرتے تھے۔ میر کاظم حسین ان کی غزل بنانے لگے، انھیں دنوں میں جان الفنسٹن صاحب شکار پور سندھ وغیرہ سرحدات سے لے کر کابل تک عہد نامے کرنے کو چلے، انھیں ایک میر منشی کی ضرورت ہوئی کہ قابلیت و علمیت کے ساتھ امارت خاندانی کا جوہر بھی رکھتا ہو، میر کاظم حسین نے اس عہدہ پر سفارش کے لئے ولی عہد سے شقّہ چاہا۔ مرزا مغل بیگ ان دنوں میں مختار کل تھے اور وہ ہمیشہ اس تاک میں رہتے تھے کہ جس پر ولی عہد کی زیادہ نظر عنایت ہو اُسے کسی طرح سامنے سے سرکاتے رہیں۔ اس قدرتی پیچ سے میر کاظم حسین کو شقّہ سفارش بآسانی حاصل ہو گیا اور وہ چلے گئے۔

چند روز کے بعد ایک دن شیخ مرحوم جو ولی عہد کے یہاں گئے تو دیکھا کہ تیر اندازی کی مشق کر رہے ہیں، انھیں دیکھتے ہی شکایت کرنے لگے میاں ابراہیم اُستاد تو دکن گئے۔ میر کاظم حسین اُدھر چلے گئے۔ تم نے بھی ہمیں چھوڑ دیا؟ غرض اسی وقت ایک غزل جیب سے نکال کر دی کہ ذرا اسے بنا دو، یہ وہیں بیٹھ گئے اور غزل بنا کر سُنائی۔ ولی عہد بہادر بہت خوش ہوئے اور کہا کہ کبھی کبھی تم آ کر ہماری غزل بنا جایا کرو، یہ زمانہ وہ تھا کہ ممتاز محل کی خاطر سے اکبر شاہ کبھی مرزا سلیمؔ کبھی مرزا جہانگیر وغیرہ شاہزادوں کی ولی عہدی کے لئے کوششیں کرتے تھے، اور کہتے تھے کہ مرزا ابو ظفر میرے بیٹے ہی نہیں، مقدمہ اس گورنمنٹ میں دائر تھا اور ولیعہد کو بجائے ۵ ہزار روپیہ کے فقط ۵ سو روپیہ مہینہ ملتا تھا، غرض چند روز اصلاح جاری رہی، اور آخر کار سرکار ولی عہدی سے ۴ روپیہ مہینہ بھی ہو گیا۔ اس وقت لوگوں کے دلوں میں بادشاہ کا رعب و داب کچھ اور تھا چنانچہ کچھ ولی عہدی کے مقدمہ پر خیال کر کے کچھ تنخواہ کی کمی پر نظر کر کے باپ نے اکلوتے بیٹے کو اس نوکری سے روکا، لیکن ادھر تو شاعروں کےے جمگھٹ کی دل لگی نے ادھر کھینچا، اُدھر قسمت نے آواز دی کہ چار روپیہ نہ سمجھنا، یہ ایوانِ ملک الشعرائی کے چار ستون قائم ہوئے ہیں، موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دینا، چنانچہ شیخ مرحوم ولیعہد کے استاد ہو گئے۔

دلی میں نواب الہی بخش خاں معروف (بخارا میں خواجہ عبد الرحمٰن بسویؔ ایک رائیس عالی خاندان خواجہ احمد بسوی کی اولاد میں تھے، اتفاق زمانہ سے وطن چھوڑ کر بلخ میں آئے اور یہیں خانہ دار ہوئے۔ خدا نے تین فرزند رشید عطا کئے۔ قاسم جان، عالم جان، عارف جان، جوانوں کی ہمت مردانہ نے گھر میں بیٹھنا گوارا نہ کیا۔ ایک جمعیت سوار و پیادہ ترکان اذبک وغیرہ کی لیکر ہندوستان آئے۔ پنجاب میں معین الملک عرف میر مُنّو خلف نواب قمرالدین خاں وزیر محمد شاہی حاکم تھے۔ ان رائیس زادوں کو اپنی رفاقت میں۔ خاک پنجاب میں سکھوں کی قوم سبزہ خودرو کی طرح جوش مار رہی تھی، اُنے کے زمانہ میں اِن کی تگ و تاز نے ہمت کے گھوڑے دوڑا کر نام پیدا کیا۔ چند روز میں میر منور مر گئے، بادشاہی زور کو سکھوں نے دبانا شروع کیا، انھوں نے امرائے بادشاہ کی نااہلی اور بے لیاقتی سے شکستہ ہو کر دربار کا رُخ کیا۔ وقت وہ تھا کہ شاہ عالم بادشاہ تھے اور میرن کے مقابلہ پر بنگالہ میں جوج لئے پڑے تھے، یہ بھی وہیں پہونچے اور دلاوری کے ساتھ ایسی جانفشانی دکھائی کہ نواب قاسم جان کو ہفت ہزاری منصب اور شرف الدولہ شہراب جنگ خطاب عطا ہوا۔ جب بادشاہ وہاں سے پھرے تو تینوں بھائی دلی میں آئے اور یہیں سکونت اختیار کی۔ لڑائیوں میں ہمیشہ اپنی ہمت کے ساتھ ذوالفقار الدولہ نواب نجف خاں سپہ سالار کے لئے قوت بازو رہے۔ نواب عارف جان دیہات، جاگیر وغیرہ کا انتظام کرتے تھے۔ انھوں نے وفات میں بھی اپنے برادر ارجمند نواب قاسم جان کا ساتھ دیا اور چار بیٹے چھوڑے، نبی بخش خاں، احمد بخش خاں، محمد علی خاں، الہٰی بخش خاں، نواب احمد بخش خاں راؤ راجہ بختاور سنگھ والی الور کی طرف سے معتمد اور وکیل ہو کر لارڈ لیک صاحب بہادر کے ساتھ ہندوستان کی مہمات میں شامل رہے اور اپنی ذات سے بھی رسالہ رکھ کر خدمت گورنمنٹ بجا لاتے رہے۔ اس کے صلہ میں فیروز پور جھرکہ وغیرہ جاگیر سرکار سے عنایت ہوئی اور بادشاہی سے خطاب فخر الدولہ دلاور الملک رستم جنگ بہ وسیلہ ریزیڈنٹ دہلی عطا ہوا۔ ان کے بڑے بیٹے نواب شمش الدین خاں جانشین ہوئے مگر زمانہ نے اس کا ورق اس طرح اُلٹا کہ نام و نشان تک نہ رہا، فخر الدولہ مرحوم نواب امین الدین خاں و نواب ضیاء الدین خاں کو جدا جاگیر دے گئے تھے کہ لوہارو مشہور ہے۔ نواب امین الدین خاں مسند نشین ریاست رہے، ان کے بعد ان کے بیٹے نواب علاء الدین خاں مسند نشین ہوئے کہ علوم مشرقی کے ساتھ زبان انگریزی مہارت کامل رکھتے تھے۔ علائی تخلص کرتے ہیں اور غالب مرحوم کے شاگرد ہیں، نواب ضیاء الدین خاں بہادرت کو علوم ضروری سے فارغ ہو کر فن شعرا اور مطالعہ کتب کا ایسا شوق ہوا کہ دنیا کی کوئی دولت اور لذت نظر میں نہ آئی۔ اب تک اسی میں محو ہیں۔ غالبؔ مرحوم کے شاگرد ہیں۔ فارسی میں نیّر تخلص کرتے۔ احباب کی فرمائش سے کبھی اُردو میں بھی کہہ دیتے ہیں اور اس میں رخشاںؔ تخلص کرتے ہیں۔ فقیر آزاد کے حال پر شفقت بزرگانہ فرماتے ہیں۔ خدا دونوں کے کمال کا سایہ اہل دہلی کے سر پر رکھے۔ ان ہی لوگوں سے دلّی دلی ہے، ورنہ اینٹ پتھر میں کیا دھرا ہے؟

ہم تبرک ہیں بس اب کر لے زیارت مجنوں

سر پہ پھرتا ہے لئے آبلہ پا ہم کو​

ایک عالی خاندان امیر تھے۔ علوم ضروری سے باخبر تھے اور شاعری کے کہنہ مشاق، مگر اس فن سے ایسا عشق رکھتے تھے کہ فنا فی الشعر کا مرتبہ اسی کو کہتے ہیں، چونکہ لطفِ کلام کے عاشق تھے، اس لئے جہاں متاع نیک دیکھتے تھے نہ چھوڑتے تھے۔ زمانہ کہ درازی نے سات شاعروں کی نظر سے ان کا کلام گزرانا تھا، چنانچہ ابتداء میں شاہ نصیرؔ مرحوم سے اصلاح لیتے رہے اور سید علی خاں غمگینؔ وغیرہ وغیرہ اُستادوں سے بھی مشورہ ہوتا رہا، جب شیخ مرحوم کا شہرہ ہوا تو انھیں بھی اشتیاق ہوا، یہ موقع وہ تھا کہ نواب موصوف نے اہل فقر کی برکت صحبت سے ترک دنیا کر کے گھر سے نکلنا بھی چھوڑ دیا تھا، چنانچہ اُستاد مرحوم فرماتے تھے کہ میری ۱۹ – ۲۰ برس کی عمر تھی۔ گھر کے قریب ایک قدیمی مسجد تھی، ظہر کے بعد وہاں بیٹھ کر میں وظیفہ پڑھ رہا تھا، ایک چوبدار آیا۔ اس نے سلام کیا اور کچھ چیز رومال میں لپٹی ہوئی میرے سامنے رکھ کر الگ بیٹھ گیا، وظیفہ سے فارغ ہو کر اُسے دیکھا تو اس میں ایک خوشہ انگور کا تھا، ساتھ ہی چوبدار نے کہا کہ نواب صاحب نے دعا فرمائی ہے، یہ بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ آپ کا کلام تو پہونچا ہے، مگر آپ کی زبان سے سننے کو جی چاہتا ہے، شیخ مرحوم نے وعدہ کیا اور تیسرے دن تشریف لے گئے۔

وہ بہت اخلاق سے ملے اور بعد گفتگوئے معمولی کے شعر کی فرمائش کی۔ انھوں نے ایک غزل کہنی شروع کی تھی۔ اس کا مطلع پڑھا :

نگہ کا وار تھا دل پر پھڑکنے جان لگی

چلی تھی برچھی کسی پر کسی کے آن لگی​

سُن کر بہت خوش ہوئے اور کہا کہ خیر حال تو پہلے ہی معلوم ہو گیا تھا، مگر تمھاری زبان سے سُن کر اور لطف حاصل ہوا۔ اِدھر اُدھر کی باتیں ہونے لگیں، عجیب اتفاق یہ کہ حافظ غلام رسول شوقؔ (حافظ غلام رسول کے سامنے ہی شیخ مرحوم کا انتقال ہو گیا، چنانچہ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ گلی میں ٹہل رہے تھے میں بھی ساتھ تھا، حافظ غلام رسول صاحب سامنے آ گئے چنانچہ شیخ مرحوم نے اسی آداب سے جس طرح بچپن میں سلام کرتے تھے انھیں سلام کیا، انھوں نے جواب دیا مگر اس تُرشروئی سے گویا سو ۱۰۰ شیشہ سرکہ کے بہا دیئے۔ جب وہ بازار میں نکلتے تو لوگ آپس میں اشارے کر کے دکھاتے کہ دیکھو میاں وہ اُستاد ذوق کے اُستاد جا رہے ہیں۔) یعنی اُستاد مرحوم کے قدیمی اُستاد اُسی وقت آ نکلے، نواب انھیں دیکھ کر مسکرائے اور شیخ مرحوم نے اُسی طرح سلام کیا جو سعادت مند شاگردوں کا فرض ہے۔ وہ اِن سے خفا رہتے تھے کہ شاگرد میرا اور مجھے غزل نہین دکھاتا اور مشاعروں میں میرے ساتھ نہیں چلتا، غرض اُنھوں نے اپنے شعر پڑھنے شروع کر دیئے۔ شیخ مرحوم نے وہاں ٹھہرنا مناسب نہ سمجھا اور رخصت چاہی، چونکہ نواب مرحوم کے برابر بیٹھے ہوئے تھے، نواب نے چپکے سے کہا، کان بدمزہ ہو گئے۔ کوئی شعر اپنا سناتے جاؤ، اُستاد مرحوم نے اُنھیں دنوں میں ایک غزل کہی تھی۔

دو (۲) مطلع اس کے پڑھے :

جینا نظر اپنا ہمیں اصلا نہیں آتا

گر آج بھی وہ رشکِ مسیحا نہیں آتا


مذکور تری بزم میں کس کا نہیں آتا

پر ذکر ہمارا نہیں آتا، نہیں آتا​

اُس دن سے معمول ہو گیا کہ ہفتہ میں دو دن جایا کرتے اور غزل بنا آیا کرتے تھے۔ چنانچہ جو دیوان معروف اب رائج ہے، وہ تمام و کمال انہی کا اصلاح کیا ہوا ہے، نواب مرحوم اگرچہ صنعف پیری کے سبب سے خود کاوش کر کے مضمون کو لفظوں میں بٹھا نہیں سکتے تھے، مگر اس کے حقائق و دقائق کو ایسا پہونچے تھے کہ جو حق ہے اس عالم میں اُستاد مرحوم کی جوان طبیعت اور ذہن کی کاوش ان کی فرمائش کے نکتے نکتے کا حق ادا کرتی تھی، شیخ مرحوم کہا کرتے تھے کہ اگرچہ بڑی بڑی کاہشیں اُٹھانی پڑیں، مگر اُن کی غزل بنانے میں ہم آپ بن گئے۔

فرماتے تھے کہ اپنی مدت شوق میں وہ بھی کبھی جراءتؔ، کبھی سوداؔ، کبھی میرؔ کے انداز میں غزلیں لکھتے رہے۔ مگر اخیر میں کچھ بمقتضائے سن، کچھ اس سبب سے کہ صاحبِ دل اور صاحبِ نسبت تھے، خواجہ میر دردؔ کی طرز میں آ گئے تھے، یہ بھی آپ ہی کہتے تھے کہ ان دنوں میں ہمارا عالم ہی اور تھا۔ جوانی دوانی، ہم کبھی جراءتؔ کے رنگ میں ، کبھی سوداؔ کے انداز میں، اور وہ روکتے تھے، آج الہٰی بخش خاں مرحوم ہوتے تو ہم کہکر دکھاتے اب ان کا دیوان ویسا ہی بنا دیتے جیسا اُن کا جی چاہتا تھا، ان کی باتیں کرتے اور بار بار افسوس کرتے اور کہتے ہائے الہٰی بخش خاں اُن کا نام ادب سے لیتے تھے اور اس طرح ذکر کرتے تھے، جیسے کوئی بااعتقاد اپنے مرشد کا ذکر کرتا ہے، اُن کی سیکڑوں باتیں بیان کیا کرتے تھے، جو دین دنیا کے کاموں کا دستور العمل ہیں۔

یہ بھی فرماتے تھے کہ ایسا سخی میں نے آج تک نہیں دیکھا جو آتا تھا امیر، فقیر، بچہ بوڑھا اسے دیئے نہ رہتے تھے، اور دینا بھی وہی کہ جو اس کے مناسب حال ہو۔ کوئی سوداگر نہ تھا کہ آئے اور خالی پھر جائے۔ انھیں اس بات کی بڑی خوشی تھی کہ ہماری غزل ہمارے پاس بیٹھ کر بناتے جاؤ، سُناتے جاؤ، میں نے اس باب میں پہلو بچایا تھا، مگر ان کی خوشی اسی میں دیکھی تو مجبور ہوا، اور یہی خوب ہوا، ایک دن میں ان کی غزل بنا رہا تھا، اس کا مقطع تھا۔

اک غزل پُردرد سی معروف لکھ اس طرح میں

ذوق ہے دل کو نہایت درد کے اشعار سے


کون روتا ہے یہ لگ کر باغ کی دیوار سے

جانور گرنے لگے جائے ثمر اشجار سے​

سوداگر آیا اور اپنی چیزیں دکھانے لگا۔ ان میں ایک اصفہانی تلوار تھی تھی۔ وہ پسند آئی، خم دم آبدار سی اور جوہر دیکھ کر تعریف کی، اور میری طرف دیکھ کر کہا۔

مصرعہ : "اس ضعیفی میں یہاں تک شوق ہے تلوار سے"​

میں نے اسی وقت دوسرا مصرع لگا کر داخل غزل کیا، بہت خوش ہوئے۔

سر لگا دیں ابروئے خمدار کی قیمت میں آج

اس ضعیفی میں یہاں تک شوق ہے تلوار سے​

خیر اور چیزوں کے ساتھ وہ تلوار بھی لے لی، میں حیران ہوا کہ یہ تو ان کے معاملات و حالات سے کچھ بھی تعلق نہیں رکھتی اسے کیا کریں گے۔ خدا کی قدرت دو تین ہی دن کے بعد بڑے صاحب (فریزیر صاحب ریذیڈنٹ دہلی) ایک اور صاحب کو اپنے ساتھ لیکر نواب احمد بخش خاں مرحوم کی ملاقات کو آئے، وہاں سے ان کے پاس آ بیٹھے، باتیں چیتیں ہوئیں، جو صاحب ساتھ تھے، ان سے ملاقات کروائی۔ جب چلنے لگے تو انھوں نے وہی تلوار منگوا کر صاحب کے ہمراہی کی کمر سے بندھوائی اور کہا :

برگِ سبز است تحفہ درویش

چہ کند بے نوا ہمیں دارد​

اُن کے ساتھ میم صاحب بھی تھیں، ایک ارگن باجا نہایت عمدہ کسی رومی سوداگر سے لیا تھا وہ انھیں دیا۔

اُن کے اشعار کا ایک سلسلہ ہے جس میں ردیف دارا ۱۰ مطلع ہیں اور کوئی سبزی کے مضمون سے خالی نہیں۔ اسی رعایت سے اس کا نام تسبیح زمرد رکھا تھا۔ یہ تسبیح بھی اُستاد مرحوم نے پروئی تھی اور آخر میں ایک تاریخ فارسی زبان میں اپنے نام سے کہکر لگائی تھی۔ جن دنوں ان کے دانے پروئے تھے تو نواب صاحب مرحوم کی سب پر فرمائش تھی کہ کوئی مثل، کوئی محاورہ سبزی کا بتاؤ، انکا بذل و کرم اور حسنِ اخلاق اور علو رتبہ کے سبب سے اکثر شرفاء خصوصاً شعراء آ کر جمع ہوتے تھے اور اشعار سنتے سُناتے تھے، ان دنوں میں اِن کے شوق سے اوروں پر بھی سبز رنگ چھایا ہوا تھا، بھورے خاں آشفتہ ایک پُرانے شاعر شاہ محمدی مائل کے شاگرد اور ان کے مرید تھے اور پانچ روپے وظیفہ بھی پاتے تھے، اُن کے شعر میں ہری چُگ (ہری چُگ، بیوفا ہرجائی کو کہتے ہیں، گویا وہ ایک جانور ہے کہ جہاں ہری گھانس پاتا ہے چرتا ہے، جب وہ نہ رہے تو جہاں اور ہری گھاس دیکھتا ہے آ موجود ہوتا ہے۔) کا لفظ آیا ہے کہ ان کے ہاں ابھی تک نہ بندھا تھا، ان سے وہ شعر لے لیا اور اپنے انداز سے سجایا :

آج یہاں کل وہاں گزرے یوہیں جگ ہمیں

کہتے ہیں سب سبزہ رنگ اس سے ہری چگ ہمیں​

انھیں سو روپے ایک رومال میں باندھ کر دے دیئے کہ تمھاری کاوش کیوں خالی جائے، افسوس ہے کہ اخیر میں کمبخت بھورے خاں نے روسیاہی کمائی اور سب تعلقات پر خاک ڈال کر اُن کی ہجو کہی، لطف یہ کہ دریا دل نواب طبیعت پر اصلا میل نہ لائے، لیکن ان نااہل کو آزردہ ہی کرنا منظور تھا، جب دیکھا کہ انھیں کچھ رنج نہیں تو نواب حسام الدین حیدر خاں نامی کی ہجو کہی۔ نامی مرحوم سے انھیں ایسی محبت تھی کہ وہ خود بھی کہتے تھے اور لوگ بھی کہتے تھے کہ ان دونوں بزرگوں میں محبت نہیں عشق ہے (اگلے زمانہ کی دوستیاں ایسی ہی ہوتی تھیں) ان کی تعریف میں غزلیں کہہ کر داخل دیوان کی تھیں، ایک مطلع یاد ہے :

جو آؤ تم مرے مہمان حسام الدین حیدر خاں

کروں دل نذر، جاں قرباں حسام الدین حیدر خاں​

جب ان کی ہجو کہی تو انھیں سخت رنج ہوا، اس پر بھی اتنا کہا کہ ہمارے سامنے نہ آیا کرو۔ وہ بھی سمجھ گیا۔ عذر میں کہا کہ لوگ ناحق بدنام کرتے ہیں۔ میں نے تو نہیں کہی، کہا بس آگے نہ بولو۔ اتنی مدت ہم نے زمین سخن کی خاک اُڑائی، کیا تمھاری زبان بھی نہیں پہچانتے؟ میں تو اس سے بدتر ہوں جو کچھ تم نے کہا، مگر میرے لئے تم میرے دوستوں کو خراب کرنے لگے، بھئی مجھ سے نہیں دیکھا جاتا، پھر جیتے جی بھورے خاں کی صورت نہ دیکھی۔ اُستاد مرحوم فرماتے تھے کہ دالان میں ایک جانماز بچھی رہتی تھی، جب میں رخصت ہوتا تو آٹھویں، دسویں دن فرماتے، بھئی میاں ابراہیم! ذرا ہماری جانماز کے نیچے دیکھنا۔ پہلے دن تو تو دیکھ کر حیران ہوا کہ ایک پڑیا میں روپے دھرے تھے۔ آپ نے سامنے سے مسکرا کر فرمایا۔

مصرعہ "خدا دیوے تو بندہ کیوں نہ لیوے"​

اس میں لطیفہ یہ تھا کہ ہم کس قابل ہیں، جو کچھ دیں، جس سے ہم مانگتے ہیں یہ وہی تمھیں دیتا ہے۔

ایک دفعہ اُستاد بیمار ہوئے اور کچھ عرصہ کے بعد گئے۔ ضعف تھا اور کچھ کچھ شکایتیں باقی تھیں، فرمایا کہ حقہ پیا کرو۔ عرض کی بہت خوب، اب وہ حقہ پلوائیں تو خالی حقہ پلوائیں۔ ایک چاندی کی گڑگڑی، چلم اور چنبل، مغرق نیچہ مرصع مہنال تیار کروا کر سامنے رکھ دیا۔

خلیفہ صاحب (میاں محمد اسمٰعیل) چھوٹے سے تھے۔ ایک دن اُستاد کے ساتھ چلے گئے۔ رخصت ہوئے تو ایک چھوٹا سا ٹانگن اصطبل سے منگایا، زین زریں کیا ہوا، اُس پر سوار کر کے رخصت کیا کہ یہ بچہ ہے، کیا جانے گا میں کس کے پاس گیا تھا۔

کسی کھانے کو جی چاہتا تو آپ نے کھاتے، بہت سا پکواتے، لوگوں کو بلاتے، آپ کھڑے رہتے، انھیں کھلواتے، خوش ہوتے اور کہتے کہ دل سیر ہو گیا۔ یہ ساری سخاوتیں اسی سعادت مند بھائی کی بدولت تھیں، جو دن بھر سر انجام مہمام میں جان کھپاتا تھا، راتوں سوچ میں گھلتا تھا اور خاندان کے نام کو زندہ کرتا تھا اور ان سے فقط دعا کی التجا رکھتا تھا۔

اُستاد مرحوم فرماتے تھے کہ ایک دن میں بیٹھا غزل بنا رہا تھا کہ نواب احمد بخش خاں آئے، آداب معمولی کے بعد باتوں باتوں میں کہنے لگے کہ فلاں انگریز کی ضیافت کی اتنا روپیہ اس میں صرف ہوا، فلانی گھوڑ دوڑ میں ایک چائے پانی دیا تھا، یہ خرچ ہو گیا۔ وہ صاحب آئے تھے، اصطبل کی سیر دکھائی۔ کاٹھیاوار کے گھوڑوں کی جوڑی کھڑی تھی، انھوں نے تعریف کی میں نے بگھی میں جڑوائی۔ اور اسی پر سوار کر کے اُنھیں رخصت کیا وغیرہ وغیرہ کیا کروں، خالی ملنا، خالی رخصت کرنا مجھ سے نہیں ہو سکتا۔ یہاں امیروں کو امارت کے بڑے بڑے دعوے ہیں (جس طرح بچے بزرگوں سے بگڑ بگڑ کر باتیں کرتے ہیں، چیں بہ چیں ہوتے تھے اور کہتے تھے) فیل خانہ میں گیا تھا وہاں یہ بندوبست کر آیا ہوں۔ گھوڑیاں آج سب علاقہ بھجوا دیں۔ حضرت کیا کروں۔ شہر ۔۔۔۔ اس گلہ کا گزارہ نہیں، یہ لوگ اس خرچ کا بوجھ اُٹھائیں تو چھاتی تڑق جائے، الہٰی بخش خاں مرحوم بھی ادا شناسی میں کمال ہی رکھتے تھے، تاڑ گئے، چپکے بیٹھے سنتے تھے اور مسکراتے تھے، جب اُن کی زبان سے نکلا کہ چھاتی تڑق جائے، آپ مسکرا کر بولے، بال تو آپ کی چھاتی میں بھی آیا ہو گا، شرما کر آنکھیں نیچی کر لیں، پھر انھوں نے فرمایا، آخر امیر زادے ہو، خاندان کا نام ہے، یہی کرتے ہیں، مگر اس طرح نہیں کہا کرتے، نواب احمد بخش خاں نے کہا، حضرت پھر آپ سے بھی نہ کہوں؟ فرمایا خدا سے کہا، وہ بولے کہ مجھے آپ دکھائی دیتے ہیں۔ آپ ہی سے کہتا ہوں۔ آپ خدا سے کہیے۔ فرمایا کہ اچھا ہم تم مل کر کہیں۔ تمھیں بھی کہنا چاہیے۔ نواب احمد بخش خاں بھی جانتے تھے کہ جو سخاوت ادھر ہوتی ہے عین بجا ہے، اور اسی کی ساری برکت ہے۔

ایک دن نواب احمد بخش خاں آئے، لیکن افسردہ اور برآشفتہ، الہٰی بخش خاں مرحوم سمجھ جاتے تھے کہ کچھ نہ کچھ آج ہے جو اس طرح آئے ہیں۔ پوچھا آج کچھ خفا ہو؟ کہا نہیں حضرت۔ فیروز پور جھرکے جاتا ہوں، پوچھا کیوں؟ کہا بڑے صاحب (صاحب ریذیڈنٹ) نے حکم دیا ہے کہ جس کو ملنا ہو بدھ کو ملاقات کرے، حضرت آپ جانتے ہیں مجھے ہفتہ میں دس دفعہ کام پڑتے ہیں، جب جی چاہا گیا، جو ضرورت ہوئی کہہ سُن آیا۔ مجھ سے یہ پابندیاں نہیں اُٹھتیں۔ میں یہاں رہتا ہی نہیں؟ فرمایا کہ تم کہا ہے؟ کہا مجھ سے تو نہیں کہا، سُنا ہے بعض رؤسا گئے بھی تھے۔ اُن سے ملاقات نہ کی۔ یہی کہلا بھیجا کہ بدھ کو ملئے۔ فرمایا کہ تمھارے واسطے نہیں، اوروں کے لئے ہو گا، احمد بخش خاں نے کہا نہیں حضرت یہ اہل فرنگ ہیں، ان کا قانون عام ہوتا ہے جو سب کے لئے ہے وہی میرے لئے ہو گا۔ فرمایا کہ بھلا تو جاؤ، تم ابھی جاؤ، دیکھو تو کیا ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا، بہت خوب جاؤں گا، فرمایا کہ جاؤں گا، نہیں اُٹھئے بس اب جائیے، نواب نے کہا کہ نہیں، میں نے عرض کیا، ضرور جاؤں گا، بگڑ کر بولے کہ عرض ورض نہیں، بس شرط یہ ہے کہ اسی وقت جائیے اور سیدھے وہیں جائیے گا۔ احمد بخش خاں بھی انداز دیکھ کر خاموش ہوئے اور اُٹھ کر چلے۔ انھوں نے فرمایا کہ وہیں جانا اور مجھے پریشان تو کیا ہے، ذرا پھرتے ہوئے ادھر ہی کو آنا۔ اُستاد کہتے تھے کہ وہ تو گئے مگر ان کو دیکھتا ہوں کہ چپ اور چہرہ پر اضطراب، کوئی دو گھڑی ہوئی تھی ابھی میں بیٹھا غزل بنا رہا ہوں کہ دیکھتا ہوں۔ نواب سامنے سے چلے اے ہیں۔ خوش خوش، لبوں پر تبسم، آ کر سلام کیا اور بیٹھ گئے۔ انھوں نے دیکھتے ہی کہا، کیوں صاحب؟ نواب بولے گیا تھا، وہ اطلاع ہوتے ہی خود نکل آئے اور پوچھا ہیں نواب! اس وقت خلاف عادت؟ میں نے کہا بھئی میں نے سنا تم نے حکم دیا ہے کہ جو ہم سے ملے بدھ کو ملے۔ ابھی میں تقریر تمام بھی نہ کی تھی کہ وہ بولے نہیں نہیں نواب صاحب! آپ کے واسطے یہ حکم نہیں۔ آپ ان لوگوں میں نہیں ہیں۔ آپ جس وقت چاہے چلے آئیں۔ میں نے کہا، بھائی تم جانتے ہو، ریاست کے جھگڑے ہیں حفقانی دیوانہ کوئی بات کہنی ہے، کوئی سننی ہے، بس میرے کام تو بند ہوئے۔ بھائی میں تو رخصت کو آیا تھا کہ فیروز پور چلا جاؤں گا، اب یہاں رہ کر کیا کروں۔ انھوں نے پھر وہی کلمات ادا کئے اور کہا، دن رات میں جب جی چاہے، میں نے کہا، خیر تو خاطر جمع ہو گئی۔ اب میں جاتا ہوں۔ الہٰی بخش خاں مرحوم بھی شگفتہ ہو گئے اور کہا بس اب جائیے آرا م کیجئے۔ آزاد جو خدا کے لئے دنیا کو چھوڑ بیٹھے ہیں، خدا بھی انھیں نہیں چھوڑتا۔

ساتھ ہی اُستاد مرحوم یہ بھی کہتے تھے اور یہ بات بھی لکھنے کے قابل ہے کہ زبان سے الہٰی بخش خاں مرحوم نے کبھی نہیں کہا۔ مگر میں جانتا ہوں انھیں آرزو بھی کہ علی بخش خاں (ایک ہی بیٹا تھا) بذات خود صاحب منصب اور صاحب امارت ہو، چچا کا اور اس کی اولاد کا دستِ نگر نہ ہو، ساز و سامان کر کے ریاستوں میں بھی بھیجا۔ صاحب لوگوں کے ہاں بھی بندوبست گئے، ظاہری و باطنی ساری کوششیں کیں، یہی بات نصیب نہ ہوئی، مشیت اللہ مشیت اللہ اور وہ خود بھی اخیر میں سمجھ گئے تھے۔ ایک دن انھیں باتوں میں اُستاد نے فرمایا کہ علی بخش خاں بھی خوبصورت اور شاندار امیر زادہ تھا، میں نے عرض کی کہ حضرت کئی دفعہ بعض مجلسوں میں، بعض درباروں میں میں نے دیکھا ایسے تو نہیں، افسردہ ہو کر کہا، کیا کہتے ہو ذکر جوانی اور پیری اور ذکر امیری اور فقری کس کو یقین آیا ہے۔

لطیفہ : استاد مرحوم نے فرمایا کہ اُن دنوں مرزا خاں کوتوال تھے۔ مرزا قتیل کے شاگرد، فارسی نگاری اور انشاء پردازی کے ساتھ سخن فہمی کے دعوے رکھتے تھے۔ منشی محمد منین خاں میر منشی تھے اور فی الحقیقیت نہایت خوش صحت خوش اخلاق بامروت لوگ تھے۔ ایک روز دونوں صاحب الہی بخش خاں مرحوم کی ملاقات کو آئے اور تعارف رسمی کے بعد شعر کی فرمائش کی، انھیں اور لوگوں کی طرح یہ عادت نہ تھی، کہ خواہ مخواہ جو آئے اُسے اپنے شعر سنانے لگیں، اگر کوئی فرمائش کرتا تھا تو بات کو ٹال کر پہلے اُس کا کلام سُن لیتے تھے۔ شاعر نہ ہوتا تو کہتے کہ کسی اور اُستاد کے دو چار شعر پڑھئے جو آپ کو پسند ہوں، جب اس کی طبیعت معلوم کر لیتے، تو اسی رنگ کا شعر اپنے اشعار میں سُناتے، اسی بنیاد پر ان سے کہا کہ آپ دونوں صاحب کُچھ کچھ اشعار سنائیے۔ انھوں نے کچھ شعر پڑھے، بعد اس کے الہٰی بخش خاں مرحوم نے دو تین شعر وہ بھی ان کے اصرار سے پڑھے اور اِدھر اُدھر کی باتوں میں ٹال گئے۔ جب وہ چلے گئے تو مجھ سے کہنے لگے۔ میاں ابراہیم! تم نے دیکھا؟ اور ان کے شعر بھی سُنے! عجیب مجہول الکیفیت ہیں، کچھ حال ہی نہیں کُھلتا کہ ہیں کیا؟ یہی مرزا خاں اور منشی صاحب ہیں جن کی سخن پردازی کاور نکتہ یابی کی اتنی دھوم ہے اور اس پر تماش بینی کے بھی دعوے ہیں۔ رنڈی تو ان کے منھ پر دو جوتیاں بھی نہ مارتی ہو گی۔ بھلا یہ کیا کہیں گے اور کیا سمجھیں گے، آزاد ملک سخن اور شاعری کا عالم، عالم گوناگوں ہے، ہمہ گیر ذہن اور کیفیت سے لطف اُٹھانے والی طبیعت اس کے لئے لازم ہے، الہٰی بخش خاں مرحوم صاحبِ دل، پاکیزہ نفس، روشن ضمیر تھے، مگر ہر بات کو جانتے تھے اور جاننے والے جانتے ہیں کہ بات کا جاننا اور چیز ہے اور کرنا اور چیز ہے۔ طبیعتیں ہیں کہ نہیں کرتیں اور سب کچھ جانتی ہیں اور ایسی بھی ہیں کہ سب کچھ کرتی ہیں اور کچھ نہیں جانتیں، خوشا نصیب اُن لوگوں جنھیں خدا اثر پذیر دل اور کیفیت کے پانے والی طبیعت عنایت کرے کہ عجب دولت ہے۔

اِدھر ولی عہد بہادر کی فرمائشیں اُدھر نواب مرحوم کی غزلوں پر طبیعت کی آزمائشیں تھیں کہ کئی برس کے بعد شاہ نصیر مرحوم دکن سے پھرے اور اپنا معمولی مشاعرہ جاری کیا۔ شیخ علیہ الرحمۃ کی مشقیں خوب زوروں پر چڑھ گئی تھیں، انھوں نے بھی مشاعرہ میں جا کر غزل پڑھی، شاہ صاحب نے دکن میں کسی کی فرمائش سے ۹ شعر کی ایک غزل کہی تھی، جس کی ردیف تھی آتش و آب و خاک و باد، وہ غزل مشاعرہ میں سنائی اور کہا اِس طرح جو غزل لکھے، اُسے میں اُستاد مانتا ہوں (یہ طنز ہے شیخ مرحوم پر کہ ولیعہد بہادر اور نواب الہٰی بخش خاں کی غزل بناتے تھے اور اُستاد کہلاتے تھے)۔ دوسرے مشاعرہ میں انھوں نے اس پر غزل پڑھی، شاہ صاحب کی طرف سے بجائے خود اس پر کچھ اعتراض ہوئے۔ جشن قریب تھا شیخ علیہ الرحمۃ نے بادشاہ کی تعریف میں ایک قصیدہ اسی طرح میں لکھا۔ مگر پہلے مولوی شاہ عبد العزیز صاحب کے پاس لے گئے کہ اس کے صحت و سقم سے آگاہ فرمائیں۔ انھوں نے سُن کر پڑھنے کی اجازت دی کہ ولی عہد بہادر نے اپنے شقہ کے ساتھ اُسے پھر شاہ صاحب کے پاس بھیجا، انھوں نے جو کچھ کہا تھا وہی جواب میں لکھ دیا اور یہ شعر بھی لکھ دیا۔

بود بگفتہ من ھرف اعتراض چناں

کسے بدیدہ بینا فرد برو انگشت​

شیخ صاحب کا دل اور بھی قوی ہو گیا اور دربار شاہی نیں جا کر قصیدہ سُنایا، اس کے بڑے بڑے چرچے ہوئے اور کئی دن کے بعد سُنا کہ اس پر اعتراض لکھے گئے ہیں۔

شیخ مرحوم قصیدہ مذکور کو مشاعرہ میں لے گئے کہ وہاں پڑھیں اور روبرو برسر معرکہ فیصلہ ہو جائے، چنانچہ قصیدہ پڑھا گیا، شاہ نصیر مرحوم نے ایک مستعد طالب علم کو کہ کتب تحصیلی اُسے خوب رواں تھیں، جلسہ میں پیش کر کے فرمایا کہ انھوں نے اس پر کچھ اعتراض لکھے ہیں، شیخ علیہ الرحمۃ نے عرض کی کہ میں آپ کا شاگرد ہوں اور اپنے تئیں اس قابل نہیں سمجھتا کہ آپ کے اعتراضوں کے لئے قابل خطاب ہوں، انھوں نے کہا مجھ سے کچھ تعلق نہیں، انھوں نے کچھ لکھا ہے، شیخ مرحوم نے کہا خیر تحریر تو اسی وقت تک ہے کہ فاصلہ دوری درمیان ہو، جب آمنے سامنے موجود ہیں تو تقریر فرمائیے، قصیدہ کا مطلع تھا :

کوہ اور آندھی میں ہوں گر آتش و آب و خاک و باد

آج نہ چل سکیں گے پر آتش و آب و خاک و باد​

معترض نے اعتراض کیا کہ سنگ میں آتش کے چلنے کا ثبوت چاہیے انھوں نے کہا کہ جب پہاڑ کو بڑھنے کے سبب سے حرکت ہے تو اس میں آگ کو بھی حرکت ہو گی، معترض نے کہا کہ سنگ میں آتش کا ثبوت چاہیے، انھوں نے کہا کہ مشاہدہ! اس نے کہا کتابی سند دو، انھوں نے کہا تاریخ سے ثابت ہے کہ ہوشنگ کے وقت میں آگ نکلی۔ اس نے کہا کہ شاعری میں شعر کی سند درکار ہے۔ تاریخ شعر میں نہیں چلتی، حاضرین مشاعرہ اِن جواب و سوال کی اُلٹ پلٹ کے تماشے دیکھ رہے تھے اور اعتراض پر حیران تھے کہ دفعتہً شیخ علیہ الرحمۃ نے یہ شعر محسن تاثیر کا پڑھا :

پیش از ظہور جلوہ جانانہ سوختیم

آتش بہ سنگ بود کہ ماخانہ سوختیم​

سُنتے ہیں کہ مشاعرہ میں غل سے ایک ولولہ پیدا ہوا اور ساتھ ہی سوداؔ کا مصرع گزرانا :

مصرعہ "ہر سنگ میں شرار ہے تیرے ظہور کا"​

اسی طرح اکثر سوال و جواب ہوئے، شاہ صاحب بھی بیچ میں کچھ دخل دیتے جاتے تھے، اخیر میں ایک شعر پر انھوں نے یہ اعتراض کیا کہ اس میں ثبوت روانی کا نہیں ہے، شیخ علیہ الرحمۃ نے کہا یہاں تغلیب ہے، اس وقت خود شاہ صاحب نے فرمایا کہ یہ تغلیب کہیں آئی نہیں۔ انھوں نے کہا کہ تغلیب کا قاعدہ ہے، انھوں نے کہا کہ جب تک کسی اُستاد کے کلام میں نہ ہو جائز نہیں ہو سکتی۔ شیخ علیہ الرحمۃ نے کہا کہ اپ نے نو شعر کی غزل پڑھ کر فرمایا تھا کہ اس طرح میں کوئی غزل کہے تو ہم اسے استاد جانیں، میں نے تو ایک غزل اور تین قصیدے لکھے اب بھی اُستاد نہ ہوا، معترض نے کہا کہ اس وقت مجھ سے اعتراضوں کا پورا سر انجام نہیں ہو سکتا، کل پر منحصر رکھنا چاہیے اور جلسہ برخاست ہوا۔

اُسی دن سے اُنھیں تکمیل علوم اور سیر کتب کا شغل واجب ہوا، قدرتی سامان اس کا یہ ہوا کہ راجہ صاحب رام جو املاک شاہ اودھ کے مختار تھے، انھیں یہ شوق ہوا کہ اپنے بیٹے کو کتب علمی کی تحصیل تمام کروائیں۔ مولوی عبد الرزاق کہ شیخ مرحوم کے قدیمی اُستاد تھے، وہی ان کے پڑھانے پر مقرر ہوئے، اتفاقاً ایک دن یہ بھی مولوی صاحب کے ساتھ گئے، چونکہ اِن کی تیزیِ طبع کا شہرہ ہو گیا تھا، راجہ صاحب رام نے اُن سے کہا کہ میاں ابراہیم! تم ہمیشہ درس میں شریک رہو، چنانچہ نوبت یہ ہو گئی کہ اگر یہ کبھی شغل یا ضرورت کے سبب وہاں نہ جاتے تو راجہ صاحب رام کا آدمی انھیں ڈھونڈھکر لاتا اور نہیں تو ان کا سبق ملتوی رہتا۔

کہا کرتے تھے کہ جب بادشاہ عالم ولی عہدی میں تھے تو مرزا سلیم کے بیاہ کی تہنیت میں ایک مثنوی ہم نے لکھی، اس کی بحر، مثنوی کی بحروں سے الگ تھی، لوگوں نے چرچا کیا کہ جائز نہیں، میر نجات کی گل کشتی ہماری دیکھی ہوئی تھی، مگر حکیم مرزا محمد صاحب رحمۃ اللہ (حکیم مرزا محمد صاحب علم و فضل کے خاندان سے ایک فاضل کامل اور جامع الکمالات تھے، طب میں حکیم محمد شریف خاں مرھوم کے شاگرد تھے جو حکیم محمود خاں کے دادا تھے۔ حکیم مرزا محمد صاحب خود بھی شاعر تھے اور ان کے والد بھی صاحب علم و فضل شاعر تھے۔ کاملؔ تخلص کرتے تھے اور میر شمس الدین فقیرؔ مصنف حدائق البلاغت کے شاگرد تھے۔ ان کا ایک ھبوط رسالہ "علم قوافی" میں نے دیکھا ہےہ۔ انھوں نے تحفہ اثنا عشریہ کا جواب لکھا تھا، اخیر کے تین باب باقی تھے جو دنیا سے انتقال کیا۔ اکثر علما نے کتاب مذکورہ کے جواب لکھے ہیں مگر متانت اور جامعیت اور اختصار کے ساتھ انھوں نے لکھا ہے کسی نے نہیں لکھا۔) زندہ تھے اور میرے والد مرحوم انھیں کا علاج کرتے تھے۔ وسعتِ معلومات اور حصولِ تحقیقات کی نظر سے ہم نے ان سے جا کر پوچھا، انھوں نے فرمایا کہ رواج انفاقی ہے جو مثنوی انہی آٹھ بحروں میں منحصر ہو گئی ہے ورنہ طبع سلیم پر کون حاکم ہے جو روکے، جس بحر میں چاہو لکھو۔ اُستاد کے مسودوں میں ایک پرچہ پر چند شعر اس کے نکلے تھے۔ ان میں ساچق کا مضمون تھا۔ دو شعر اب تک یاد ہیں :

ٹھلیاں تو نہ تھیں وہ مئے عشرت کے سُبو تھے

یا قُلزم مستی کے حبابِ لبِ جو تھے


لازم تھا کہ لکھ باندھتے یہ اُن کے گلو میں

ہے بند کیا عیش کے دریا کو سُبو میں​

چند سال کے بعد انھوں نے ایک قصیدہ اکبر شاہ کے دربار میں کہکر سُنایا کہ جس کے مختلف شعروں میں انواع و اقسام کے صنائع و بدائع صرف کئے تھے، اس کے علاوہ ایک ایک زبان میں جو ایک ایک شعر تھا ان کی تعداد اٹھارہ تھی۔ مطلع اس کا یہ ہے :

جبکہ سرطان و اسد مہر کا ٹھہرا مسکن

آب و ایلولہ ہوئے نشو نمائے گلشن​

اس پر بادشاہ نے خاقانی ہند کا خطاب عطا کیا۔ اسوقت شیخ مرحوم کی عمر ۱۹ برس کی تھی۔

حافظ احمد یار (دیکھو صفحہ ۳۶۸، حافظ احمد یار سید انشاء کے یار ہیں۔ یہ عجیب شگفتہ مزاج، خوش طبع سخن فہم شخص تھے۔ باوجودیکہ استاد جوان تھے وہ بڈھے تھے مگر یاروں کی طرح ملتے تھے۔ حافظ مرحوم ان ہی مولوی صاحب کے داماد تھے۔ جنھوں نے حلّت زاغ کا فتویٰ دیا تھا اور سوداؔ نے ان کی ہجو کہی تھی۔ ترجیع بند مخمس میں۔ ع

زاغ - " ایک مسخرہ یہ کہتا ہے کوّا حلال ہے"​

نے چند روز پہلے خواب میں دیکھا کہ ایک جنازہ رکھا ہے بہت سے لوگ گرد جمع ہیں، وہاں حافظ عبد الرحیم کہ حافظ احمد یار کے والد تھے، ایک کھیر کا پیالہ لئے کھرے ہیں، اور شیخ علیہ الرحمۃ کو اس میں چمچے بھر بھر دیتے جاتے تھے، حافظ موصوف نے اُن سے پوچھا کہ یہ کیا معرکہ ہے اور جنازہ کس کا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ یہ مرزا رفیعؔ کا جنازہ ہے اور میاں ابراہیم ان کے قائم مقام مقرر ہوئے ہیں۔ خاقانی ہند کے خطاب پر لوگوں نے بڑے چرچے کئے کہ بادشاہ نے یہ کیا کیا، کہن سال اور نامی شاعروں کے ہوتے ایک نوجوان کو ملک الشعراء بنایا اور ایسا عالی درجہ کا خطاب دیا۔ ایک جلسہ میں یہی گفتگو ہو رہی تھی، کسی نے کہا کہ جس قسیدہ پر یہ خطاب عطا ہوا ہے اُسے بھی تو دیکھنا چاہیے۔ چنانچہ قصیدہ مذکور لا کر پڑھا گیا، میر کلّو حقیر کہ شاعر سن رسیدہ اور شعرائے قدیم کے صحبت یافتہ تھے، سُن کر بولے کہ بھئی انصاف شرط ہے، کلام کو بھی تو دیکھو، ایسے شخص کو بادشاہ نے کاقانیِ ہند کے خطاب سے ملک الشعراء بنایا تو کیا بُرا کیا۔ مجھے یاد ہے جب اُستاد مرحوم نے یہ حال بیان کیا، اس وقت بھی کہا تھا اور جب میں ارباب زمانہ کی بے انصافی یا اُن کی بے خبری اور بے صبری سے دق ہو کر کچھ کہتا تو فرماتے تھے کہ بے انصافوں ہی میں سے باانصاف بھی بول اُٹھتا ہے، بیخبروں میں باخبر بھی نکل آتا ہے۔ اپنا کام کئے جاؤ، ۳۶ برس کی عمر تھی جبکہ جملہ منہیات سے توبہ کی اور اس کی تاریخ کہی۔ ع

"اے ذوقؔ بگو سہ (۳) بار توبہ"​

مرزا ابو ظفر بادشاہ ہو کر بہادر شاہ ہوئے تو انھوں نے پہلے یہ قصیدہ گزرانا :

روکش ترے رُخ سے ہو کیا نور سحر رنگ شفق

ہر ذرّہ تیرا پرتوِ نور سحر رنگِ شفق​

اگرچہ مرزا ابو ظفر ہمیشہ انھیں دل سے عزیز رکھتے تھے اور دلی رازوں کے لئے مخزن اعتبار سمجھتے تھے، مگر ولی عہدی میں مرزا مغل بیگ مختار تھے، جب کبھی بڑی سے بڑی ترقی یا انعام کے موقعے آئے تو اُستاد کے لئے یہ ہوا کہ ۴ روپیہ مہینہ سے ۵ روپیہ ہو گئے، ۵ روپیہ سے ۷ روپیہ ہو گئے۔ جب جب بادشاہ ہوئے اور مرزا مغل بیگ وزیر ہوئے تو وزیر شاہی کا سارا کُنبہ قلعہ میں بھر گیا، مگر اُستاد شاہی کو ۳۰ روپیہ مہینہ! پھر بھی انھوں نے حضور میں اپنی زبان سے ترقی کے لئے عرض نہیں کی، ان کی عادت تھی کہ فکرِ سخن میں ٹہلا کرتے تھے اور شعر موزوں کیا کرتے تھے، چنانچہ ان دونوں میں جب کوئی عالی مضمون چُستی اور دُرستی کے ساتھ موزوں ہوتا، تو اس کے سرور میں آسمان کی طرف دیکھتے اور کہتے پھرتے :

یوں پھریں اہلِ کمال آشفتہ حال افسوس ہے

اے کمال افسوس ہے تجھ پر کمال افسوس ہے​

یہاں عبد العزیز خاں صاحب (فراش کانہ کی کھڑکی میں رہتے تھے) ایک مرد بزرگ صاحب نسبت فقیر تھے، شیخ مرحوم بھی اُن سے بہت اعتقاد رکھتے تھے، اس عالم میں ایک دن اُن کے پاس گئے اور کہا کہ تخت نشینی سے پہلے حضور کے بڑے بڑے وعدے تھے، لیکن اب یہ عالم ہے کہ الف کے نام ب نہیں جانتے، زبان تک درست نہیں، مگر جو کچھ ہیں مرزا مغل بیگ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ خدائی کے کارخانے میں اگرچہ عقل ظاہر میں کام نہیں کرتی، مگر یہ دیکھو کہ جو دولت تم کو دی ہے وہ اس کو بھی تو نہیں دی ہے، جس دعویٰ سے تم دربار میں کھڑے ہو کر اپنا کلام پرھتے ہو، اس دعوے سے وہ اپنی وزارت کے مقام پر کب کھڑا ہو سکتا ہو گا، ادنیٰ ادنیٰ منشی متصدی اس کے لکھتے پڑھتے ہوں گے، وہ کیسا ترستا ہو گا کہ زیادہ کے لکھنے کو سمجھ سکتا ہے، نہ ان کا جھوٹ سچ معلوم کر سکتا ہے، شیخ مرحوم نے اُن کی ہدایت کو تسلیم کیا، اور پھر کبھی شکایت نہ کی۔

چند روز کے بعد مرزا مغل بیگ کی تُرکی تمام ہو گئی۔ تمام کُنبہ قلعہ سے نکالا گیا، نواب حامد علی خاں مرحوم مختار ہو گئے، جب اُستاد شاہی کا سو (۱۰۰) روپیہ مہینہ ہوا، ہمیشہ عیدوں اور نوروزوں کے جشنوں میں قصیدے مبارکباد کے پڑھتے تھے اور خلعت سے اعزاز پاتے تھے۔

اواخر ایّام میں ایک دفعہ بادشاہ بیمار ہوئے، جب شفا پائی، اور انھوں نے ایک قصیدہ غرّا کہہ کر گزرانا تو خلعت کے علاوہ خطاب خان بہادر اور ایک ہاتھی معہ حوضہ نقرئی انعام ہوا۔

پھر ایک بڑے زور شور کا قصیدہ کہہ کر گزرانا، جس کا مطلع ہے۔ ع

شب کو میں اپنے سرِ بسترِ خواب رات​

اس پر ایک گاؤں جاگیر عطا ہوا۔

جس رات کی صبح ہوتے انتقال ہوا، قریب شام میں بھی موجود تھا کہ انھیں پیشاب کی حاجت معلوم ہوئی۔ خلیفہ صاحب نے اُٹھایا، چوکی پائینتی لگی ہوئی تھی، ہاتھ کا سہارا دیا اور انھوں نے کھسک کر آگے بڑھنا چاہا، طاقت نے یاری نہ دی تو کہا، آہ ناتوانی، خلیفہ صاحب نے فرمایا، شاعروں ہی کا ضعف ہو گیا، حافظ ویران بھی بیٹھے تھے، وہ بولے کہ آپ نے بھی ضعف کے بڑے بڑے مضمون باندھے ہیں، مسکرا کر فرمایا کہ اب تو کچھ اس سے بھی زیادہ ہے۔ میں نے کہا سبحان اللہ! اس عالم میں بھی مبالغہ قائم ہے۔ خدا اسی مبالغہ کے ساتھ توانائی دے۔ میں رخصت ہوا۔ رات اسی حالت سے گزری۔ صبح ہوتے کہ ۲۴ صفر ۱۲۷۱ھ جمعرات کا دن تھا، ۱۷ دن بیمار رہ کر وفات پائی، مرنے سے ۳ گھنٹے پہلے یہ شعر کہا تھا۔

کہتے ہیں آج ذوق جہاں سے گذر گیا

کیا خوب آدمی تھی خدا مغفرت کرے​

شعرائے ہند نے جس قدر تاریخیں اُن کی کہیں، آج تک کسی بادشاہ یا صاحب کمال کو نصیب نہیں ہوئیں۔

اُردو اخبار ان دنوں دہلی میں جاری تھے، برس دن تک کوئی اخبارایسا نہ تھا جسمیں ہر ہفتہ کئی کئی تاریخیں نہ چھپی ہوں۔

خاص حالات اوور طبعی عادات​

شیخ مرحوم قد و قامت میں متوسط اندام تھے، چنانچہ خود فرماتے ہیں :

آدمیت سے ہے بالا آدمی کا مرتبہ

پست ہمت یہ نہ ہوئے پست قامت ہو تو ہو​

رنگ سانولا، چیچک کے داغ بہت تھے، کہتے تھے کہ ۹ دفعہ چیچک نکلی تھی مگر رنگت اور وہ داغ کچھ ایسے مناسب و موزوں واقع ہوئے تھے کہ چمکتے تھے اور اب بھلے معلوم ہوتے ہیں، آنکھیں روشن اور نگاہیں تیز تھیں، چہرہ کا نقشہ کھڑا تھا اور بدن میں پھرتی پائی جاتی تھی، بہت جلد چلتے تھے، اکثر مفید کپڑے پہنتے تھے اور وہ اُن کو نہایت زیب دیتے تھے، آواز بلند اور خوش آیند، جب مشاعرہ میں پڑھتے تھے تو محفل گونچ اُٹھتی تھی۔ اُن کے پڑھنے کی طرز اُن کے کلام کی تاثیر کو زیادہ زور دیتی تھی، اپنی غزل آپ ہی پڑھتے تھے، کسی اور سے ہرگز نہ پڑھواتے تھے۔

صنائع قدرت جنھیں صاحب کمال کرتا ہے انھیں اکثر صفتیں دیتا ہے۔ جن میں وہ ابنائے جنس سے صاف الگ نظر آتے ہیں، چنانچہ ان کی تیزی ذہن اور براقی طبع کا حال تو اب بھی اُن کے کلام سے ثابت ہے مگر قوت حافظہ کے باب میں ایک ماجرا عالم شیر خواری کا انھوں نے بیان کیا، جسے سُن کر سب تعجب کریں گے۔ کہتے تھے مجھے اب تک یاد ہے کہ اس عالم میں ایک دن مجھے بخار تھا، والدہ نے پلنگ پر لٹا کر لحاف اوڑھا دیا، اور آپ کسی کام کو چلی گئیں، ایک بلی لحاف میں گُھس آئی، مجھے اس سے اور اس کی خُر خُر کی آواز سے نہایت تکلیف معلوم ہونے لگی۔ لیکن نہ ہاتھ سے ہٹا سکتا تھا نہ زبان سے پکار سکتا تھا، گھبراتا تھا اور رہ جاتا تھا۔ تھوڑی دیر میں والدہ آ گئیں، انھوں نے اُسے ہٹایا تو مجھے غنیمت معلوم ہوا اور وہ دونوں کیفیتیں ابتک یاد ہیں۔ چنانچہ میں جب بڑا ہوا تو میں والدہ سے پوچھا انھوں نے یاد کر کے اس واقعہ کی تصدیق کی، اور کہا فی الحقیقت اُس وقت تیری عمر برس دن سے کچھ کم تھی۔

صلاحیت کے باب میں خدا کا شکر کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ایک دن املی کے درخت میں کنکوا اٹک گیا، میں اُتارنے کو اوپر چڑھ گیا اور ایک ٹہنی کو سہارے کے قابل سمجھ کر پاؤں رکھا، وہ ٹوٹ گئی میں نیچے آ پڑا۔ بہت چوٹ لگی۔ مگر خدا نے ایسی توفیق دی کہ پھر نہ کنکوا اُڑایا نہ درخت پر چڑھا۔

عمر بھر اپنے ہاتھ سے جانور ذبح نہیں کیا، عالم جوانی کا ذکر کرتے تھے کہ یاروں نے ایک مجرب نسخہ قوت باہ کا بڑی کوششوں سے ہاتھ آیا، شریک ہو کر اُس کے بنانے کی صلاح ٹھہری۔ ایک ایک جزو کا بہم پہونچانا ایک ایک شخص کے ذمہ ہوا۔ چنانچہ ۴۰ چڑوں کا مغز ہمارے سر ہوا۔ ہم نے گھر آ کر اُن کے پکڑنے کے سامان پھیلا دیئے اور دو تین چڑے پکڑ کر ایک پنجرے میں ڈالے۔ ان کا پھڑکنا دیکھ کر خیال آیا کہ ابراہیم ایک پل کے مزے کے لئے ۴۰ بے گناہوں کا مارنا کیا انسانیت ہے، یہ بھی تو آخر جان رکھتے ہیں۔

اور اپنی پیاری زندگی کے لئے ہر قسم کی لذتیں رکھتے ہیں، اسی وقت اٹھا، انھیں چھوڑ دیا اور سب سامان توڑ پھوڑ کر یاروں میں جا کر کہدیا کہ بھئی ہم اس نسخہ میں شریک نہیں ہوتے۔

ان کی عادت تھی کہ ٹہلتے بہت تھے۔ دروازہ کے آگے لمبی گلی تھی۔ اکثر اس میں پھرا کرتے تھے، رات کے وقت ٹہلتے ٹہلتے آئے اور کہنے لگے کہ میاں ایک سانپ گلی میں چلا جاتا تھا، حافظ غلام رسول ویران شاگرد رشید بھی بیٹھے تھے انھوں نے کہا کہ حضرت آپ نے اسے مارا نہیں؟ کسی کو آواز دی ہوتی، فرمایا کہ خیال تو مجھے بھی آیا تھا۔ مگر پھر میں نے کہا کہ ابراہیم آخر یہ بھی تو جان رکھتا ہے تجھے کَے رکعت کا ثواب ہو گا، پھر یہ قطعہ پڑھا۔

چہ خوش گفت فردوسیِ پاک زاد

کہ رحمت برآں تربتِ پاک داد


میازاء مورے کہ دانہ کش است

کہ جان داردس دو جان شیریں خوش است​

ایک دفعہ برسات کا موسم تھا، بادشاہ قطب میں تھے، یہ ہمیشہ ساتھ ہوتے تھے۔ اس وقت قصیدہ لکھ رہے تھے۔

شب کو میں اپنے سر بستر خواب راحت​

چڑیاں سائبان میں تنکے رکھ کر گھونسلا بنا رہی تھیں اور ان کے تِنکے جو گرتے تھے انھیں لینے کو بار بار ان کے آس پاس آ بیٹھتی تھیں، یہ عالم محویت میں بیٹھے تھے۔ ایک چڑیا سر پر آن بیٹھی۔ انھوں نے ہاتھ سے اُڑا دیا۔ تھوڑی دیر میں پھر آن بیٹھی انھوں نے پھر اُڑا دیا، جب کئی دفعہ ایسا ہوا، تو ہنس کر کہا اس غیبانی نے میرے سر کر کبوتروں کی چھتری بنایا ہے۔

ایک طرف میں بیٹھا تھا، ایک طرف حافظ ویرانؔ بیٹھے تھے، وہ نابینا ہیں، انھوں نے پوچھا کہ حضرت کیا؟ میں نے حال بیان کیا۔ ویران بولے کہ ہمارے سر پر تو نہیں بیٹھتی۔ استاد نے کہا کہ بیٹھے کیوں کر جانتی ہے کہ یہ ۔۔۔۔ ہے، عالم ہے، حافظ ہے، ابھی اُحِلَّ لکُما رصَّیدُ کی آیت پڑھ کر کُلوُ وَشربُو بسمِ اللہ اللہ اکبرَ کر دے گا، دیوانی ہے؟ جو تمھارے سر پر آئے۔

فرماتے تھے کہ میں نے ساڑھے تین سو دیوان اساتذہ سلف کے دیکھے اور ان کا خلاصہ کیا، خان آرزو کی تصنیافات اور ٹیک چند بہار کی تحقیقات اور اس قسم کی اور کتابیں گویا ان کی زبان پر تھیں۔ مگر مجھے اس کا تعجب نہیں، اگر شعرائے عجم کے ہزاروں شعر انھیں یاد تھے تو مجھے حیرت نہیں۔ گفتگو کے وقت جس تڑاتے سے وہ شعر سند میں دیتے تھے، مجھے اس کا بھی خیال نہیں کیونکہ جس فن کو وہ لئے بیٹھے تھے یہ سب اس کے لوازمات ہیں، ہاں تعجب یہ ہے کہ تاریخ کا ذکر ائے تو وہ ایک صاحبِ نظر مؤرخ تھے، تفسیر کا ذکر آئے تو ایسا معلوم ہوتا، گویا تفسیر کبیر دیکھ کر اٹھے ہیں، خصوصاً تصوّف میں ایک عالم خاص تھا، جب تقریر کرتے یہ معلوم ہوتا تھا کہ شیخ شبلی ہیں یا بایزید بسطامی بول رہے ہیں، کہ وحدتِ وجود اور وحدت شہود میں علم اشراق کا پرتو دے کر کبھی ابو سعید ابو الخیر تھے، کبھی محی الدین عربی، پھر جو کہتے تھے ایسے کانٹے کی تول کہتے تھے کہ دل پر نقش ہو جاتا تھا اور جو کچھ ان سے لیا ہے، آج تک دل پر نقش ہے، رمل و نجوم کا ذکر آئے تو وہ نجومی تھے، خواب کی تعبیر میں انھیں خدا نے ایک ملکہ راسخہ دیا تھا اور لطف یہ کہ احکام اکثر مطابق واقع ہوتے تھے۔ اگرچہ مجھے اس قدر وسعت نظر بہم پہنچانے کا تعجب ہے مگر اس سے زیادہ تعجب یہ ہے کہ ان کے حافظہ میں اس قدر مضامین محفوظ کیونکر رہے۔

وہ کہتے تھے کہ اگرچہ شعر کا مجھے بچپن سے عشق ہے مگر ابتدا میں دنیا کی شہرت اور ناموری اور تفریح طبع نے مجھے مختلف کمالوں کے رستے دکھائے۔ چند روز موسیقی کا شوق ہوا اور کچھ حاصل بھی کیا مگر خاندیش سے ایک صاحبِ کمال گوّیا آیا۔ اس سے ملاقات کی۔ باتوں باتوں میں اس نے کہا کہ جو گانے کا شوق کرے اس کے لئے تین سو برس کی عمر چاہیے۔ سو (۱۰۰) برس سیکھے، سو (۱۰۰) برس سنتا پھرے اور جو سیکھا ہے اسے مطابق کرے پھر سو (۱۰۰) برس بیٹھ کر اوروں کو بھی سنائے اور اس کا لطف اٹھائے۔ یہ سن کر دل برداشتہ ہو گیا اور یہ بھی خیال آیا کہ ابراہیم اگر بڑا کمال پیدا کیا تو ایک ڈوم ہو گئے، اس پر بھی جو کلاونت ہو گا وہ ناک چڑھا کر یہی کہے گا کہ اتائی ہیں۔ سپاہی زادے سے ڈوم بننا کیا ضرور۔

نجوم و رمل کا بھی شوق کیا، اس میں دستگاہ پیدا کی، نجوم کا ایک صاحب کمال مغل پورہ میں رہتا تھا، اس سے نجوم کے مسائل حل کیا کرتے تھے۔ ایک دن کسی سوال کا نہایت درست جواب اس نے دیا اور گفتگو ہوتے ہوتے یہ بھی کہا کہ ایک ستارہ کا حال اور اس کے خواص معلوم کرنے کے لئے ۷۷ برس چاہیے ہیں۔ سن کر اس سے بھی دل برداشتہ ہو گئے۔

طب کو چند روز کیا، اس میں خونِ ناحق نظر آنے لگے، آخر جو طبیعت خدا نے دی تھی، وہی خوبی قسمت کا سامان بنی۔

مکھن لال کے گنج میں ایک جوتشی پنڈت تلسی رام نابینا تھے، ایک مرد دیرینہ سال منشی درگا پرشاد کہ شیخ مرحوم کے قدیمی دوست تھے اور جوتشی صاحب کے پاس بھی جایا کرتے تھے، انھوں نے جوتشی صاحب کی بہت تعریف کی، اور ایک دن قرار پا کر یہ بھی ان کے پاس گئے۔ کئی دل چسپ سلسلے گفتگوؤں کے ہوئے، بعد اذاں انھوں نے بے اظہار نام اپنے زائچہ کی صورت حال بیان کی۔ جوتشی صاحب نے کہا وہ شخص صاحب کمال ہو اور غالباً کمال اس کا کسی ایسے فن میں ہو کہ باعث تفریح ہو۔ اس کا کمال رواج خوب پاوے، اس کے حریف بھی بہت ہوں مگر کوئی سامنے نہ ہو سکے۔ وہ اسی قسم کی باتیں کہتے جاتے تھے، جو شیخ مرحوم نے پوچھا کہ اس کی عمر کیا ہو۔ انھوں نے کہا کہ ۶۷، ۶۸ حد ۶۹۔ یہ سن کر شیخ مرحوم کے چہرہ پر آثار ملال ظاہر ہوئے اور خدا کی قدرت ۶۸ برس کی عمر میں انتقال ہوا۔ اگرچہ عقلاً اور نقلاً احکام نجوم پر اعتقاد نہ کرنا چاہیے، لیکن واقعہ پیش نظر گذرا تھا، اس لئے واقعہ نگاری کا حق ادا کیا۔ میں بھی دیکھتا تھا کہ انھیں آخر عمر میں مرنے کا خیال اکثر رہتا تھا، ایک دفعہ بادشاہ بیمار ہو کر اچھے ہوئے، غسل صحت کا جشن قریب تھا، انھوں نے مبارکباد کا قصیدہ کہا، میں حسبِ معمول خدمت میں حاضر ہوا، اور وہ اس وقت قصیدہ ہی لکھ رہے تھے، چنانچہ کچھ اشعار اس کے سنانے لگے، مطلع تھا۔

زہے نشاط کہ گر کیجئے اسے تحریر

عیاں ہو خامہ سے تحریر نغمہ جائے سریر​

اس کے آگے شعر سناتے جاتے تھے، میں تعریف کرتا جاتا تھا وہ مسکراتے جاتے تھے اور پڑھتے جاتے تھے۔

ہوا پہ دوڑتا ہے اس طرح سے ابرِ سیاہ

کہ جیسے جائے کوئی فیلِ مست بے زنجیر​

بے اختیار میری زبان سے نکلا کہ سبحان اللہ، رنگینی اور یہ زور ظہوری کا ساقی نامہ ہو گیا۔ چپ ہو گئے اور کہا کہ اس میں زور آتا جاتا ہے۔ اس کی جوانی ہے اور میرا بڑھاپا ہے۔ حافظ ویران سلمہ اللہ نے بیان کیا، اشعار بہاریہ کے سے ہیں۔ دو تین دفعہ فرمایا خواجہ حافظ کا شعر بھی اس میں موقع سے تضمین کریں گے۔

مے دو سالہ و محبوب چاردہ سالہ

ہمیں بس است مرا صحبتِ صغیر و کبیر​

ایک دن جو میں گیا تو جو شعر پرچوں پر پریشان تھے، انھیں ترتیب دیا تھا، چنانچہ سناتے سناتے پھر شعر مذکور پڑھا۔ بعد اس کے قطعہ پڑھا کہ خود کہا تھا۔

ہوا ہے مدرسہ بھی درسگاہِ عیش و نشاط

کہ شمس بازغہ کی جا پڑھیں ہیں بدر منیر


اگر پیالہ ہے صغرا تو ہے سبُو کبرا

نتیجہ یہ ہے کہ سرمست ہیں صغیر و کبیر​

میری طرف دیکھ کر فرمایا، اب بھی! میں نے عرض کی، سبحان اللہ اب اس کی کیا ضرورت رہی، آنکھیں بند کر کے فرمایا، ادھر ہی فیضان ہے۔

دلی میں نواب زینت محل کا مکان لال کنوئیں کے پاس اب بھی موجود ہے۔ بادشاہ نے وہیں دربار کر کے یہ قصیدہ سنا تھا، اس برس ایک شادی کی تقریب میں مجھے دلی جانا ہوا، اسی مکان میں برات ٹھہری تھی، فتح دہلی کے بعد گورنمنٹ نے وہ سرکار پٹیالہ کو دے دیا ہے، بند پڑا رہتا ہے۔ اب اتنے ہی کام کا ہے کہ ادھر کے ضلع میں کوئی برات یا شادی کا جلسہ ہوتا ہے تو داروغہ سے اجازت لے کر وہاں آن بیٹھتے ہیں، واہ

کشتوں کا تیری چشم سیہ مست کے مزار

ہو گا خراب بھی تو خرابات ہوئے گا​

وہ زمانہ اور آج کی حالت دیکھ کر خدا یاد آتا ہے۔ ان کی طبیعت کو خدا تعالٰی نے شعر سے ایسی مناسبت دی تھی کہ رات دن اس کے سوا کچھ خیال نہ تھا اور اسی میں خوش تھے۔ ایک تنگ و تاریک مکان تھا جس کی انگنائی اس قدر تھی کہ ایک چھوٹی سے چارپائی ایک طرف بچھتی تھے، دو طرف اتنا راستہ رہتا تھا کہ ایک آدمی چل سکے، حقہ منھ میں لگا رہتا تھا، کھّری چارپائی پر بیٹھے رہتے تھے۔ لکھے جاتے تھے یا کتاب دیکھے جاتے تھے۔ گرمی جاڑہ برسات تینوں موسموں کی بہاریں وہیں بیٹھے گزر جاتی تھیں۔ انھیں کچھ خبر نہ ہوتی تھی، کوئی میلہ، کوئی عید اور کوئی موسم بلکہ دنیا کے شادی و غم سے انھیں سروکار نہ تھا، جہاں اول روز بیٹھے وہیں بیٹھے اور جبھی اٹھے کہ دنیا سے اٹھے۔

نماز عصر کے وقت میں ہمیشہ حاضر خدمت ہوتا تھا۔ نہا کر وضو کرتے تھے اور ایک لوٹے سے برابر کلیاں کئے جاتے تھے، ایک دن میں نے سبب پوچھا۔ متاسفانہ طور سے بولے کہ خدا جانے کہ کیا ہزلیات زبان سے نکلتے ہیں، خیر یہ بھی ایک ہے، پھر ذرا تامل کر کے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور یہ مطلع اسی وقت کہہ کر پڑھا۔

پاک رکھ اپنا وہاں ذکر خدائے پاک سے

کم نہیں ہرگز زباں منھ میں ترے مسواک ہے​

ان کا معمول تھا کہ رات کو کھانے سے فارغ ہو کر بادشاہ کی غزل کہتے تھے، آدھی بجے تک اس سے فراغت ہوتی تھی، پھر وضو کرتے اور وہی ایک لوٹے پانی سے کلّیاں کر کے نماز پڑھتے، پھر وظیفہ شروع ہوتا۔ زیر آسمان کبھی ٹہلتے جاتے کبھی قبلہ رو ٹھہر جاتے، اگرچہ آہستہ آہستہ پڑھتے تھے، مگر اکثر اوقات اس جوشِ دل سے پڑھتے تھے کہ معلوم ہوتا گویا سینہ پھٹ جائے گا۔

وٖظیفہ پڑھ کر دعائیں شروع ہوتی تھیں، یہ گویا ایک نمونہ تھا ان کی طبیعت کی نیکی اور عام نیک خواہی کا۔ اس میں سب سے پہلے یہ دعا تھی الہٰی ایمان کی سلامتی، بدن کی صحت، دنیا کی عزت و حرمت، پھر الہٰی میرے بادشاہ کو بادولت، بااقبال، صحیح و سالم رکھ، اس کے دشمن رد ہوں وغیرہ وغیرہ، پھر میاں اسمٰعیل یعنی اپنے بیٹھے کے لئے پھر اپنے عیال اور خاص خاص دوستوں کے لئے یا جو کسی دوست کے لئے خاص مشکل درپیش ہو، وغیرہ وغیرہ، ایک شب اس موقع پر میرے والد مرحوم انہی کے ہاں تھے۔ ساری دعائیں سنا کئے۔ چنانچہ ان کے دروازے کے سامنے محلہ کا حلال خور رہتا تھا۔ ان دنوں میں اس کا بیل بیمار تھا۔ دعائیں مانگتے مانگتے وہ بھی یاد آ گیا، کہا کہ الہٰی جمّا حلال کور کا بیل بیمار ہے، اسے بھی شفا دے، بیچارہ بڑا غریب ہے، بیل مر جائے گا تو یہ بھی مر جائے گا۔ والد نے جب یہ سنا تو بے اختیار ہنس پڑے، فقرا اور بزرگان دین کے ساتھ انھیں ایسا دلی اعتقاد تھا کہ اس کی کیفیت بیان نہیں ہو سکتی۔ علماء اور اساتذہ سلف کو ہمیشہ باادب یاد کرتے تھے اور کبھی ان پر طعن و تشنیع نہ کرتے تھے اس واسطے ان کے مذہب کا حال کسی پر نہ کھلا۔

اس میں کسی کو کلام نہیں کہ انھوں نے فکر سخن اور کثرت مشق میں فنا فی الشعر کا مرتبہ حاسل کیا ور انشاپردازی ہند کی روح کو شگفتہ کیا مگر فصاحت کا دل کمھلا جاتا ہو گا جب ان کے دیوان مختصر پر نگاہ پڑتی ہو گی، اس کے سبب کا بیان کرنا ایک سخت مصیبت کا افسانہ ہے، اور اس کی مرثیہ خوانی کرنی میرا فرض ہے۔ ان کی وفات کے چند روز بعد میں نے اور خلیفہ اسمٰعیل مرحوم نے کہ وہ بھی باپ کی طرح اکلوتے بیٹے تھے چاہا کہ کلام کو ترتیب دیں۔ متفرق غزلوں کے بستے اور بڑی بڑی پوٹیں تھیں۔ بہت سی تھیلیاں اور مٹکے تھے کہ جو کچھ کہتے تھے، گویا بڑی احتیاط سے ان میں بھرتے جاتے تھے، ترتیب اس کی پسینہ کی جگہ خون بہاتی تھی، کیونکہ بچپن سے لے کر دم واپسیں تک کا کلام انھیں میں تھا، بہت سی متفرق غزلیں بادشاہ کی بہتیری غزلیں شاگردوں کی بھی ملی تھیں۔

چنانچہ اول ان کی غزلیں اور قصائد انتخاب کر لیے۔ یہ کام کئی مہینے میں ختم ہوا، غزض پہلے غزلیں صاف کرنی شروع کیں، اس خطا کا مجھے اقرار ہے کہ کام میں نے جاری کیا مگر بااطمینان کیا۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ اس طرح یکایک زمانہ کا ورق الٹ جائے گا، عالم تہ و بالا ہو جائے گا۔ حسرتوں کے خون بہہ جائیں گے، دل کے ارمان دل ہی میں رہ جائیں گے۔ دفعتہً ۱۸۵۷ء کا غدر ہو گیا۔ کسی کو کسی کا ہوش نہ رہا۔ چنانچہ افسوس ہے کہ خلیفہ محمد اسمٰعیل ان کے فرزند جسمانی کے ساتھ ہی ان کے فرزند روحانی بھی دنیا سے رحلت کر گئے۔ میرا یہ حال ہوا کہ فتحیاب لشکر کے بہادر دفعتہً گھر میں گھس آئے اور بندوقیں دکھائیں کہ جلد یہاں سے نکلو، دنیا آنکھوں میں اندھیر تھی، بھرا ہوا گھر سامنے تھا اور میں حیران کھڑا تھا کہ کیا کیا کچھ اٹھا کر لے چلوں۔ ان کی غزلوں کی چُنگ پر نظر پڑی۔ یہی خیال آیا کہ محمد حسین! اگر خدا نے کرم کیا اور زندگی باقی ہے تو سب کچھ ہو جائے گا مگر استاد کہاں سے پیدا ہوں گے جو یہ غزلیں پھر آ کر کہیں گے۔ اب ان کے نام کی زندگی ہے اور ہے تو ان پر منحصر ہے۔ یہ ہیں تو وہ مر کر بھی زندہ ہیں، یہ گئیں تو نام بھی نہ رہے گا، وہی چُنگ اٹھا بغل میں مارا، سجے سجائے گھر کو چھوڑ بائیس نیم جانوں کے ساتھ گھر سے بلکہ شہر سے نکلا، ساتھ ہی زبان سے نکلا کہ حضرت آدم بہشت سے نکلے تھے۔ دلّی بھی ایک بہشت ہے، انہی کا پوتا ہوں، دہلی سے کیوں نہ نکلوں، غرض میں تو آوارہ ہو کر خدا جانے کہاں کا کہاں نکل ایا، مگر حافظ غلام رسول ویرانؔ کہ محبت کے لحاظ سے میری شفیق دوست اور حضرت مرحوم کی شاگردی کے رشتہ سے روحانی بھائی ہیں، انھوں نے شیخ مرحوم کے بعض اور درد خواہ دوستوں سے ذکر کیا کہ سودوں کا سَرمایہ تو سب دلی کے ساتھ برباد ہوا اس وقت یہ زخم تازہ ہے، اگر اب دیوان مرتب نہ ہوا تو کبھی نہ ہو گا، حافظ موصوف کو خود بھی حضرت مرحوم کا کلام بہت کچھ یاد ہے، اور خدا نے ان کی بصیرت کی آنکھیں ایسی روشن کی ہیں کہ بصارت کی آنکھوں کے محتاج نہیں، ان لئے لکھنے کی سخت مشکل ہوئی، غرض کہ ایک مشکل میں کئی کئی مشکلیں تھیں، انھوں نے اس مہم کو سر انجام کیا اور اپنی یاد کے علاوہ نزدیک بلکہ دور دور سے بہت کچھ بہم پہونچایا۔ سب کو سمیٹ کر ۱۲۷۹؁ھ میں ایک مجموعہ جس میں اکثر غزلیں تمام اور اکثر ناتمام، بہت سے متفرق اشعار اور چند قصیدے ہیں، چھاپ کر نکالا مگر دردمندی کا دل پانی پانی ہو گیا اور عبرت کی آنکھوں سے لہو ٹپکا کیونکہ جس شخص نے دنیا کی لذتیں، عمر کے مختلف موسم، اور موسموں کی بہاریں، دن کی عیدیں، رات کی شب براتیں، بدن کے آرام، دل کی خوشیاں، طبیعت کی امنگیں سب چھوڑ دیں اور ایک شعر کو لیا، جس کی انتہائے تمنا یہی ہو گی کہ اس کی بدولت نام نیک باقی رہے گا۔ تباہ کار زمانہ کے ہاتھوں آج اس عمر بھر کی محنت نے یہ سرمایہ دیا اور جس نے ادنےٰ ادنےٰ شاگردوں کو صاحبِ دیوان کر دیا، اس کو یہ دیوان نصیب ہوا۔ خیر ع

یوں ہی خدا جو چاہے تو بندہ کی کیا چلے​

میرے پاس بعض قصیدے ہیں، اکثر غزلیں ہیں، داخل ہو جائیں گی یا ناتمام غزلیں پوری ہو جائیں گی، مگر تصنیف کے دریا میں سے پیاس بھر پانی بھی نہیں۔ چنانچہ یہ تذکرہ چھپ لے تو اس پر توجہ کروں۔ مسبب الاسباب سر انجام کے اسباب عنایت فرمائے۔

جو غزلیں اپنے تخلص سے کہی تھیں اگر جمع کی جاتیں تو بادشاہ کے چاروں دیوانوں کے برابر ہوتیں، غزلوں کے دیوان دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ عام جوہر ان کے کلام کی تازگی، مضمون، صفائی کلام، چستی ترکیب، خوبی محاورہ اور عام فہمی ہے۔ مگر حقیقت میں رنگ مختلف وقتوں میں مختلف رہا۔ ابتدا میں مرزا رفیعؔ کا انداز تھا، شاہ نصیر سے ان دنوں معرکے ہو رہے تھے، ان کا ڈھنگ وہی تھا، اس لئے انھوں نے بھی وہی اختیار کیا۔ اس کے علاوہ مرزا کی طرز پر جلسہ کو گرمانے میں اور لوگوں کے لب و دہن سے واہ وا کے نکال لینے میں ایک عجیب جادو کا اثر ہے، چنانچہ وہی مشکل طرحیں، چست بندشیں، برجستہ ترکیبیں، معانی کی بلندی، الفاظ کی شکوہیں، ان کے ہاں بھی پائی جاتی ہیں، چند روز کے بعد الہٰی بخش خاں معروفؔ کی خدمت میں اور ولیعہد کے دربار میں پہنچے، معروفؔ ایک دیرینہ سال مشاق اور فقیر مزاج شخص تھے۔ ان کی پسند طبع کے بموجب انھیں بھی تصوف اور عرفان اور درد دلی کی طرف خیالات کو مائل کرنا پڑا۔ نوجوان ولی عہد طبیعت کے بادشاہ تھے۔ ادھر یہ بھی جوان اور ان کی طبیعت بھی جوان تھی، وہ جرأءتؔ کے انداز کو پسند کرتے تھے اور جراءتؔ سیّد انشاءؔ و مصحفیؔ کے مطلع اور اشعار بھی لکھنؤ سے اکثر آتے رہتے تھے۔ ان کی غزلیں ان ہی کے انداز میں بناتے تھے۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ ان کی غزلیں اخیر کو ایک گلدستہ گلہائے رنگا رنگ کا ہوتی تھی، دو تین شعر بلند خیالی کے، ایک دو تصوف کے، دو تین معاملہ کے اور پیچ اس میں یہ ہوتا تھا کہ ہر قافیہ بھی ایک خاص انداز کے ساتھ خصوصیت رکھتا ہے کہ اسی میں بندھے تو لفط دے، نہیں تو پھیکا رہے، پس وہ مشاق باکمال اس بات کو پورا پورا سمجھے ہوئے تھا، اور جس قافیہ کو جس پہلو سے مناسب دیکھتا تھا اسی میں باندھ دیتا تھا اور اس طرح باندھتا تھا کہ اور پہلو نظر نہ آتا تھا۔ ساتھ اسکے صفائی اور محاورہ کو ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے اور انہی اصول کے لحاظ سے میرؔ، مرزاؔ، دردؔ، مصحفیؔ، سید انشاءؔ، جراتؔ بلکہ تمام شعرائے متقدمین کو اس ادب سے یاد کرتے تھے۔ گویا انھیں کے شاگرد ہیں، ایک ایک کے چیدہ اشعار اس مھبت سے پڑھتے تھے گویا اسی دستور العمل سے انہوں نے تہذیب پائی ہے اور فی الحقیقت سب کے انداز کو اپنے اپنے موقع پر پورا پورا کام میں لاتے تھے، پھر بھی جاننے والے جانتے ہیں کہ اصلی میلان ان کی طبیعت کا سوداؔ کے انداز پر زیادہ تھا۔ نظم اردو کی نقاشی میں مرزائے موصوف نے قصیدہ پر دستکاری کا حق ادا کر دیا ہے۔ ان کے بعد شیخ مرحوم کے سوا کسی نے اس پر قلم نہیں اتھایا اور انھوں نے مرقع کو ایسی اونچی محراب پر سجایا کہ جہاں کسی کا ہاتھ نہیں پہنچا۔ انوریؔ، ظہیرؔ، ظہوریؔ، نظیریؔ، عرفیؔ فارسی کے آسمان پر بجلی ہو کر چمکے ہیں، لیکن ان کے قصیدوں نے اپنی کڑک دمک سے ہند کی زمین کو آسمان کر دکھایا۔ ہر جشن میں ایک قصیدہ کہتے تھے اور خاص خاص تقریبیں جو پیش آتی تھیں، وہ الگ تھیں۔ اس لئے اگر جمع ہوتے تو خاقانیِ ہند کے قصائد خاقانی شروانی سے دوچند تک ہوتے جب تک اکبر شاہ زندہ تھے تب تک ان کا دستور تھا کہ قصیدہ کہکر لے جاتے اور اپنے آقا یعنی ولیعہد بہادر کو سناتے۔ دوسرے دن ولی عہد ممدوح اس میں اپنی جگہ بادشاہ کا نام ڈلوا کر لے جاتے اور دربار شاہی میں سنواتے، افسوس یہ ہے کہ عالم جوانی کی طبع آزمائی سب برباد ہوئی۔ جو کچھ ہیں وہ چند قصیدے ہیں کہ بڑھاپے کی ہمت کی برکت ہے۔

نواب حامد علی خاں مرحوم نے نہایت شوق سے ایک عاشقانہ خط لکھنے کی انھیں فرمائش کی تھی، بادشاہ کی متواتر فرمائشیں یہاں ایسے کاموں کے لئے کب فرصت دیتی تھیں، مگر اتفاق کہ انہی دنوں میں رمضان آ گیا اور اتفاق پر اتفاق یہ کہ بادشاہ نے روزے رکھنے شروع کر دیے، اس سبب سے غزل کہنی موقوف کر دی۔ خیر ان کی زبان کب رک سکتی تھی۔ اس کے علاوہ اس نئے چمن کی ہوا کھانے کو اپنا بھی جی چاہتا تھا۔ انھوں نے وہ نامہ لکھنا شروع کیا۔ اس نے ایسا طول کھینچا کہ تخمیناً تین سو شعر اس کے ہو گئے۔ اس عرصہ میں تین تختیاں سیاہ ہوئی تھیں، مگر ادھر رمضان ہو چکا، بادشاہ کی غزلیں بھی شروع ہو گئیں۔ مثنوی وہیں رہ گئی، بیچ میں کبھی کبھی پھر بھی طبیعت میں امنگ اٹھی، مگر کبھی ایک دن کبھی دو دن ۲۰، ۲۵ شعر ہوئے پھر رہ گئے۔ میں نے جب ہوش سنبھالا اور ہر وقت پاس رہنے لگا تو کئی دفعہ اس کے مختلف ذکر کرتے اور جا بجا کے شعر پڑھا کرتے تھے۔ ایک دن وہ تختیاں اور کاغذی سودے نکلوائے، بہت کم تھا جو کچھ کہ پڑھا جاتا تھا، آخر فرصت نکال نکال کر ان سے پڑھواتا گیا اور آپ لکھتا گیا۔ کل ۵۰۰ شعر سے زیادہ نہ ہوئے، اگرچہ نامہ ناتمام تھا، مگر ایک ایک مصرع سونے کے پانی سے لکھنے کے لائق تھا، میرے صاف کئے ہوئے مسودے بھی انہی متفرق غزلوں میں تھے، جو میں خلیفہ صاحب کے پاس جا کر صاف کیا کرتا تھا چنانچہ ان کے ساتھ ہی وہ بھی گئے، اس کا نام نامہ جانسوز تھا، اول حمد و نعت تھی، پھر ساقی نامہ پھر القاب معشوق، اسی میں اس کا سراپا، اس کے بعد یاد ایام، اس میں چاروں موسموں کی بہار، مگر اس کے معنوں کی نزاکت لفظوں کی لطافت ترکیبوں کی خوبیاں، اندازوں کی شوخیاں، کیا کہوں! سامری کے جادو اور جادو کے طلسم اس کے آگے دھواں ہو کر اڑ جاتے۔

کئی مخمس تھے، کئی رباعیاں تھیں صدہا تاریخیں تھیں مگر تاریخوں کی کمائی بادشاہ کے حصہ میں آئی، کیونکہ بہت بلکہ کل تاریخیں انہی کی فرمائش سے ہوئیں اور انہی کے نام سے ہوئیں۔ مرثیہ سلام کہنے کا انھیں موقع نہ ملا۔ بادشاہ کا قاعدہ تھا کہ شاہ عالم اور اکبر شاہ کی طرح محرم میں کم سے کم ایک سلام ضرور کہتے تھے۔ شیخ مرحوم بھی اسی کو اپنی سعادت اور عبادت سمجھتے تھے، ہزاروں گیت، ٹپّے، ٹھمریاں ہولیاں کہیں، وہ بادشاہ کے نام سے عالم میں مشہور ہوئیں اور ان باتوں میں اپنی شہرت چاہتے بھی نہ تھے۔ میرے نزدیک ان کے اور ان کے دیکھنے والوں کے لئے بڑے فخر کی بات یہ ہے کہ خدا نے کمال شاعری اور ایسا اعلٰی درجہ قادر الکلامی انھیں دیا اور ہزاروں آدمیوں سے انھیں ناراضی یا رنج پہنچا ہو گا، مگر انھوں نے تمام عمر میں ایک شعر بھی ہجو میں نہ کہا۔ خدا ہر شخص کو اس کی نیت کا پھل دیتا ہے۔ اس کی شان دیکھو کہ ۶۸ برس کی عمر پائی مگر خدا نے ان کی ہجو بھی کسی کے منھ سے نہ نکلوائی۔

اکثر ایجاد و اختراع ان کے ارادے میں تھے اور بعض بعض ارادے شروع ہوئے مگر ناتمام رہے کیونکہ بادشاہ کی فرمائشیں دم لینے کی مہلت نہ دیتی تھی اور تماشا یہ کہ بادشاہ بھی ایجاد کا بادشا تھا، اتنا تھا کہ بات نکالتا مگر اسے سمیٹ نہ سکتا تھا، اس کا کیا ہوا، انھیں سنبھالنا پڑتا تھا۔

وہ اپنی غزل بادشاہ کو سناتے نہ تھے۔ اگر کسی طرح اس تک پہونچ جاتی تو وہ اسی غزل پر خود غزل کہتا تھا۔ اب اگر نئی غزل کر دیں، اور وہ اپنی غزل سے پست ہو تو بادشاہ بھی بچہ نہ تھا۔ ستّر برس کا سخن فہم تھا، اگر اس سے چست کہیں تو اپنے کہے کو آپ مٹانا بھی کچھ آسان کام نہیں۔ ناچار اپنی غزل میں ان کا تخلص ڈال کر دے دیتے تھے۔ بادشاہ کو بڑا خیال رہتا تھا کہ وہ اپنی کسی چیز پر زور طبع نہ خرچ کریں۔ جب ان کے شوق طبع کو کسی طرف متوجہ دیکھتا تو برابر غزلوں کا تار باندھ دیتا کہ جو کچھ جوش طبع ہو ادھر ہی آ جائے۔

عموماً انداز کلام​

کلام کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ مضامین کے ستارے آسمان سے اتارے ہیں۔ مگر اپنے لفظوں کی ترکیب سے انھیں ایسی شان و شکوہ کی کرسیوں پر بٹھایا ہے کہ پہلے سے بھی اونچے نظر آتے ہیں۔ انھیں قادر الکلامی کے دربار سے ملک سخن پر حکومت مل گئی ہے کہ ہر قسم کے خیال کو جس رنگ سے چاہتے ہیں کہہ جاتے ہیں، کبھی تشبیہ کے رنگ سے سجا کر استعارہ کی بو سے بساتے ہیں، کبھی بالکل سادے لباس میں جلوہ دکھاتے ہیں، مگر ایسا کچھ کہہ جاتے ہیں کہ دل میں نشتر سا کھٹک جاتا ہے اور منھ سے کبھی واہ نکلتی ہے اور کبھی آہ نکلتی ہے، معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہونٹوں میں شستہ اور برجستہ لفظوں کے خزانے بھرے ہیں اور ترکیب الفاظ کے ہزاروں رنگ ہیں مگر جسے جہاں سجتا دیکھتے ہیں وہ گویا وہیں کے لئے ہوتا ہے، وہ طبیعت کامل کی طرح ہر مضمون کی طبیعت کو پہچانتے کہ کون سا ہے کہ سادگی میں رنگ دے جائے گا، اور کون سا رنگینی میں کامل مصور کی تیزی قلم کو اس کے رنگوں کی شوخی روشن کرتی ہے۔ اس طرح ان کے مضمون کی باریکی کو ان کے الفاظ کی لطافت جلوہ دیتی ہے۔ انھیں اس بات کا کمال تھا کہ باریک سے باریک مطلب اور پیچیدہ سے پیچیدہ مضمون کو اس صفائی سے ادا کر جاتے تھے گویا ایک شربت کا گھونٹ تھا کہ کانوں کے رستے سے پلا دیا، اسی وصف نے نادانوں کو غلطی میں ڈالا ہے جو کہتے ہیں کہ ان کے ہاں حالی مضامین نہیں، بلکہ سیدھی باتیں اور صاف صاف خیالات ہوتے ہیں، وہ نہیں جانتے کہ ان ہونٹوں کو خدا نے عجیب تاثیر دی ہے کہ جو لفظ ان سے ترکیب پا کر نکلے ہیں خود بخود زبانوں پر ڈھلکتے آتے ہیں، جیسے ریشم پر موتی۔ خدا جانے زبان نے کسی آئینہ کی صفائی اڑائی ہے۔ یا انھوں نے الفاظ کے نگینوں پر کیوں کر جلا کی ہے جس سے کلام میں یہ بات پیدا ہو گئی ہے۔ حقیقت میں اس کا سبب یہ ہے کہ قدرت کلام ان کے ہر ایک نازک اور باریک خیال کو محاورہ اور ضرب المثل میں اس طرح ترکیب دیتی ہے جیسے آئینہ گر شیشہ کو قلعی سے ترکیب دے کر آئینہ بناتا ہے، اسی واسطے ہر ایک شخص کی سمجھ میں آتا ہے اور دل پر اثر بھی کرتا ہے۔

ان کے کلام میں یہ بھی خصوصیت ہے کہ شعر کا کوئی لفظ بھول جائے تو جب تک وہی لفظ اس کی جگہ نہ رکھا جائے، شعر مزا نہیں دیتا چناں چہ لکھنؤ میں میر انیسؔ مرحوم کے سامنے سلسلہ تقریر میں ایک دن میں نے ان کا مطلع پڑھا۔

کوئی آوارہ تیرے نیچے اے گردوں نہ ٹھہرے گا

ولیکن تو بھی گر چاہے کہ میں ٹھہروں نہ ٹھہرے گا​

انھوں نے پوچھا کہ یہ شعر کس کا ہے؟ میں نے کہا شیخ مرحوم کا ہے۔ دو چار باتیں کر کے انھوں نے پھر فرمایا کہ ذرا وہ شعر پڑھیئے گا۔ میں نے پھر پڑھا، انھوں نے دوبار خود اپنی زبان سے پڑھا، پھر باتیں ہونے لگیں۔ چلتے ہوئے پھر کہا ذرا وہ شعر پڑھتے جائیے گا اور ساتھ اس کے یہ بھی کہا کہ صاحب کمال کی یہ بات ہے کہ جو لفظ جس مقام پر اس نے بٹھا دیا ہے اسی طرح پڑھا جاوے تو ٹھیک ہوتا ہے نہیں تو شعر رتبہ سے گر جاتا ہے۔

ان کا مضمون جس طرح دل کو بھلا معلوم ہوتا ہے، اسی طرح پڑھنے میں زبان کو مزہ آتا ہے۔ ان کے لفظوں کی ترکیب میں ایک خداداد چستی ہے جو کلام میں زور پیدا کرتی ہے۔ وہ لفظ فقط ان کے دل کا جوش ہی نہیں ظاہر کرتا بلکہ سننے والے کے دل میں ایک خروش پیدا کرتا ہے اور یہی قدرتی رنگ ہے جو ان کے کلام پر سوداؔ کی تقلید کا پرتو ڈالتا ہے۔

ان کے دیوان کو جب نظرِ غور سے دیکھا جاتا ہے تو اس سے رنگا رنگ کے زمزمے اور بوقلموں آوازیں آتی ہیں، ہر رنگ کے انداز موجود ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ان کے دیکھنے سے دل اکتا نہیں جاتا، وہ لفظ لفظ کی نبض پہچانتے تھے اور مضامین کے طبیب تھے، جس طرح برجستہ بیٹھتا دیکھتے تھے اسی طرح باندھ دیتے تھے، خیال بندی ہو یا عاشقانہ تصوف ان کے سینے میں جو دل تھا گویا ایک آدمی کا دل نہ تھا ہزاروں آدمیوں کے دل تھے۔ اس واسطے کلام ان کا مقناطیس کی طرح قبول عام کھینچتا ہے۔ دل دل کے خیال باندھتے اور اس طرح باندھتے تھے گویا اپنے ہی دل پر گزر رہی ہے۔

اعتراض​

ان کے کلام پر لوگ اعتراض بھی کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ ایک پرانی غزل کا شعر ہے۔

سر بوقت ذبح اپنا اس کے زیر پائے ہے

یہ نصیب اللہ اکبر! لوٹنے کی جائے ہے​

لوگوں نے کہا کہ بے اضافی یا صفتی ترکیب کے اس میں ی زیادہ کرنی جائز نہیں مگر یہ اعتراض ان کی کم نظری کے سبب سے تھے۔

درختے کہ اکنوں گرفت است پائے

یہ نیروئے مردے بر آید زجائے


اے زوہ برتر از گماں دامن کبریائے را

دست بتو کجا رسد عقلِ شکستہ پائے را​

ایک پرانی غزل شاہ نصیر کے مشاعرہ میں طرح ہوئی تھی۔

دانہ خرمن ہے ہمیں قطرہ ہے دریا ہم کو

آئے ہے جز میں نظر کل کا تماشا ہم کو​

اس پر اعتراض ہوا کہ اصل لفظ جزو مع واؤ کے ہے۔ فقط جز صحیح نہیں۔ اس کا بھی وہی حال تھا۔ امیر خسرو فرماتے ہیں۔

ہر چند کند و رجز و در کل اثر

کلّی و جز ئیش بودزاں خبر​

اور میرؔتقی فرماتے ہیں۔

جز مرتبہ کل کو حاصل کرے ہے آخر

اک قطرہ نہ دیکھا جو دریا نہوا ہو گا​

ایک دن میں اوج سے ملا اور استاد مرحوم کے مطلع کا ذکر کیا۔ (اوجؔ کا حال دیکھو ۶۴۴ پر)

مقابل اس رخِ روشن کے شمع گر ہو جائے

صبا وہ دھول لگائے کہ بس سحر ہو جائے​

کئی دن کے بعد جو راستے میں ملے تو دیکھتے ہی کھڑے ہو گئے اور کہا۔

یاں جو برگِ گل خورشید کا کھڑکا ہو جائے

دھول دستار فلک پر لگے تڑکا ہو جائے​

اور کہا، دیکھا! محاورہ یوں باندھا کرتے ہیں۔ میں سمجھ گیا کہ یہ طنز کرتے ہیں کہ سحر ہو جائے جو استاد نے باندھا ہے یہ جائز نہیں، مگر تجاہل کر کے میں نے کہا کہ وہاں حقیقت میں پات کے کھڑکے کا آپ نے خوب ترجمہ کیا اور استعارہ میں لا کر میری طرف دیکھکر ہنسے اور کہا کہ بھئی واہ آخر شاگرد تھے۔ ہماری بات ہی بگاڑ دی۔

دوسرے دن میں استاد مرحوم کی خدمت میں گیا اور یہ ماجرا بیان کیا۔ فرمایا کہ شمع کو صبح ہوتے ہاتھ مار کر بجھا دیتے ہیں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ شمع اگر مقابلہ کرے تو اس گستاخی کی سزا میں صبا اسے ایسی دھول مارے کہ وہ بجھ جائے اور ایسی بجھے کہ وہی اس کے حق میں سحر ہو جائے۔ یعنی روشنی نصیب نہ ہو، کبھی دوسری تیسری رات ہوئی، ہوئی نہ ہوئی نہ ہوئی، وہ اور بات ہے۔ اب یہ ایک حسن اتفاق ہے کہ ہماری زبان میں اس کے مقابل ایک محاورہ بھی موجود ہے کہ ایسی دھول لگی کہ تڑکا ہو گیا۔ خیر اگر ہوا تو کچھ لطف ہی پیدا ہوا بلکہ طرز بیان میں ایک وسعت کا قدم آگے بڑھا۔ قباحت کیا ہوئی اور یہ بھی دیکھو وہ محاورہ تو کیا تھا، مبتذل عامیانہ، اب ثقہ متین اور شریفانہ ہے۔ آزاد، ایک شعر ناسخؔ کا بھی اسی ترکیب کا ہے۔

جو ستمگر ہیں کبھی وہ پھولتے پھلتے نہیں

سبز ہوتے کھیت دیکھا ہے کہیں شمشیر کا​

محاورہ میں تلوار کا کھیت کہتے ہیں، شمشیر کا کھیت نہیں ہے۔

ان کی ایک غزل کا ایک شعر ہے :

منھ اٹھائے ہوئے جاتا ہے کہاں تو کہ تجھے

ہے ترا نقش قدم چشم نمائی کرتا​

نواب کلب حسین خاں نادرؔ، تخلیص معّلٰی میں فرماتے ہیں (تجھے) دوسرے مصرع کا حق ہے۔ پہلے مصرع میں نہیں لانا چاہیے۔ اس کا جواب مجھے نہیں آتا۔

ایک دفعہ طبع موزوں نے نیا گل کھلایا، یہ اصلاح بندہو گئی تھی۔ مگر آمد و رفت جاری تھی۔ شاہ صاحب کو جا کر غزل سنائی، انھوں نے تعریف کی اور کہا کہ مشاعرہ میں ضرور پڑھنا، اتفاقاً مطلع کے سرے ہی پر سبب خفیف کی کمی تھی، جب وہاں غزل پڑھی تو شاہ صاحب نے آواز دی کہ بھئی میاں ابراہیم واہ مطلع تو خوب کہا، شیخ مرحوم فرماتے تھے کہ اسی وقت مجھے کھٹکا ہوا اور ہی لفظ بھی سوجھا۔ دوبارہ میں نے پڑھا۔

جس ہاتھ میں خاتم لعل کی ہے گر اس میں زلفِ سرکش ہو

پھر زلف بنے وہ دستِ موسیٰ جس میں اخگر آتش ہو​

اس پر اس قدر حیرت ہوئی کہ انھوں نے جانا شائد پہلے عمداً یہ لفظ چھوڑ دیا تھا۔ مگر پھر اعتراض ہوا کہ یہ بحر ناجائز ہے۔ کسی استاد نے اس پر غزل نہیں کہی، شیخ مرحوم نے جواب دیا کہ ۱۹ بحریں آسمان سے نازل ہوئیں، طبائع موزوں نے وقت بوقت گل کھلائے ہیں، یہ تقریر مقبول نہ ہوئی مگر پھر منیر مرحوم نے اس پر غزل کہی، ایک دفعہ شیخ مرحوم نے مشاعرہ میں غزل پرھی، مطلع تھا :

نرگس کےپھول بھیجے ہیں بٹوے میں ڈال کر

ایما یہ ہے کہ بھیج دے آنکھیں نکال کر​

شاہ صاحب نے کہا کہ میاں ابراہیم پھول بٹوے میں نہیں ہوتے۔ یہ کہو۔ ع

"نرگس کے پھول بھیجے ہیں دونے میں ڈالکر"​

انہوں نے کہا کہ دونے میں رکھنا ہوتا ہے، ڈالنا نہیں ہوتا۔ یوں کہیے کہ :

بادام یہ جو بھیجے ہیں بٹوے میں ڈال کر

ایما یہ ہے کہ بھیج دے آنکھیں نکال کر​

نقل : شاہ نصیر مرحوم کے ہاں سال بسال عرس ہوا کرتا تھا، اس مین بعد فاتحہ کے کھچڑی کھلایا کرتے تھے، حسب معمول استاد بھی گئے۔ فاتحہ کے بعد سب کھانا کھانے بیٹھے۔ شاہ صاحب ایک ہاتھ میں چمچہ دوسرے میں ایک بادیہ لئے ہوئے آئے۔ اس میں دہی تھا کہ خاص خاص اشخاص کے سامنے ڈالتے آتے تھے۔ ان کے سامنے آ کر کھڑے ہوئے اور چمچہ بھرا، انھیں ریزش ہو رہی تھی، پرہیز کے خیال سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ شاہ صاحب نے کہا سنکھیا ہے سنکھیا۔ دیکھو کھاؤ گے تو مر جاؤ گے۔ استاد نے ہنس کر فرمایا۔ کہا ع

بھلا تم زہر دے دیکھو اثر ہووے تو میں جانوں​

اگرچہ یہ مصرع قدیمی میاں مجذوب (دیکھو صفحہ ۲۱۹) کا ہے، مگر چونکہ کھانے کا موقع تھا اس لئے سب کو بہت مزا دیا۔

جن دنوں شاہ صاحب سے معرکے ہو رہے تھے، منشی فیض پارساؔ دہلی کالج میں مدرس حساب تھے، اور ان دنوں جوانی کے عالم میں شاعری کے جوش و خروش میں تھے، انھوں نے مدرسہ میں بڑی دھوم دھام سے مشاعرہ قائم کیا اور اسے انشاء اردو کی ترقی کا جزو اعظم ٹھہرا کر صاحب پرنسپل سے مدد لی۔ ان دنوں میں مدرسہ اجمیری دروازہ کے باہر تھا، شہر کے دروازے ۹ بجے بند ہو جاتے تھے، گڑھ کپتان نے اجازت لی کہ مشاعرہ کے دن ۲ بجے تک اجمیری دروازہ کھلا رہا کرے۔ غرض مشاعرہ مذکور میں رؤسا اور تمام نامی شاعر موجود ہوتے تھے مگر سب کی نگاہیں شاہ صاحب اور شیخ صاحب کی طرف ہوتی تھیں۔ چنانچہ ایک مشاعرہ میں شاہ صاحب نے غزل قفس کی تیلیاں، خس کی تیلیاں پڑھی، دوسرے مشاعرہ میں یہی طرح ہو گئی، سب غزلیں کہہ کر لائے، شیخ مرحوم نے دو غزلہ لکھا اور اس پر کچھ تکرار ہوئی۔ اس پر جوش میں آ کر فرمایا کہ برس دن تک جو مشاعرہ ہو اس میں سوائے غزل طرحی کے ایک غزل اس زمین میں ہوا کرے چنانچہ دو مشاعروں میں ایسا ہوا۔ ایسے معرکوں میں عوام الناس بھی شامل ہوتے ہیں۔ تیسرے جلسہ میں جب انھوں نے غزل پڑھی تو بعض شخصوں نے کچھ کچھ چوٹیں کیں۔ جنھیں شیخ صاحب کے طرفدار سمجھے کہ شاہ صاحب کے اشارے سے ہوئیں۔ زیادہ تر یہ کہ شاہ وجیہ الدین منیر (بعض بزرگوں سے سنا کہ لالہ گھنشیام داس عاصیؔ نے پڑھا تھا۔ وہ بھی شاہ نصیر کے شاگرد تھے اور ان دنوں میں نوجوان لڑکے تھے۔ میں نے انھیں دلّی میں حکیم سکھا نند مرحوم کے مکان پر دیکھا تھا۔ بڈھے ہو گئے تھے مگر طبیعت میں نوجوانوں کی سی شوخی تھی۔ اس وقت کی باتیں اس طرح سناتے تھے جیسے کوئی کہانیاں کہتا ہے۔) یعنی شاہ صاحب کے صاحبزادے نے یہ شعر بھی پڑھ دیا۔

گرچہ قندیل سخن کو منڈھ لیا تو کیا ہوا

ڈھانچ میں تو ہیں وہی اگلے برس کی تیلیاں​

اس پر تکرار زیادہ ہوئی اور مشاعرہ بند کر دیا گیا کہ مبادہ زیادہ بے لطفی ہو جائے۔ انہی دنوں میں ایک دفعہ محمد خاں اعظم الدولہ (نواب اصغر علی خاں اصغرؔ، شاگرد مومنؔ، جنھوں نے پھر فیم تخلص کیا، یہ ان کے والد تھے۔) نے کہا کہ سرورؔ تخلص کرتے تھے اور پرانے شاعر تھے، ایک تذکرہ شعرائے اردو کا لکھا، استاد مرحوم اتفاقاً ان کے بالا خانے کے سامنے سے گزرے۔ انھوں نے بلایا اور مزاج پرسی کے بعد کہا کہ ہمارا تذکرہ تمام ہو گیا، اس کی تاریخ تو کہہ دو۔ انھوں نے کہا کہ اچھا فکر کروں گا۔ انھوں نے کہا کہ فکر کی سہی نہیں، ابھی کہہ دو۔ فرماتے تھے کہ خدا کی قدرت ان کے خطاب اور تخلص کے لحاظ سے خیال گزرا، دریائے اعظم دل میں حساب کیا تو عدد برابر تھے، میں نے جھٹ کہہ دیا۔ حاضرین جلسہ حیران رہ گئے۔

شہیدی مرحوم دلی میں آئے، امرائے شہر سے ملاقاتیں ہوئیں، نواب عبد اللہ خاں صدر الصدور شعر کے عاشق تھے، ان میں سے ایک جلسہ میں میاں شہیدی نے کہا کہ آج ہندوستان میں تین شخص ہیں، لکھنؤ میں ناسخؔ، دلّی میں ذوقؔ دکن میں حفیظ، انھوں نے کہا کہ ناسخؔ کی اولیت کا سبب میاں شہیدی نے چمن کی شاخ یاسمن کی شاخ کی غزل پڑھی، خان موصوف نے استاد مرحوم سے کہا انھوں نے اس غزل پر ایک بڑی سیر قوافی غزل کہی اور یہ بھی کہا کہ اب جو کوئی اس طرح میں غزل کہے گا، ہر ایک قافیہ کو جس جس پہلو سے میں نے باندھ دیا ہے اسے الگ کر کر کے نہ باندھ سکے گا۔ نواب عبد اللہ خاں کی فرمائش سے غزل اور انھیں کی وساطت سے یہ گفتگوئیں ہوئی تھیں، انھوں نے تجویز کی کہ مشاعرہ میں برسر معرکہ غزلیں پڑھی جائیں مگر شہیدی مرحوم بے اطلاع چلے گئے۔

نواب نے پیچھے آدمی دوڑایا، اس نے بریلی میں جا پکڑا، مگر وہ تشریف نہ لائے۔ غزل مذکور انشاء اللہ شائقان سخن کے ملاحظہ سے گزرے گی، خدا دیوان پورا کرے۔

ایک دن حسبِ معمول بادشاہ کے پاس بئے۔ ان دنوں میں مرزا شاہ رخ ایک بیٹے بادشاہ کے تھے کہ انھوں نے بہت سی خدمتیں کاروبار کی قبضہ میں کر رکھی تھیں اور اکثر حاضر رہا کرتے تھے، وہ اس وقت موجود تھے۔ انھیں دیکھتے ہی بولے کہ لیجیے وہ بھی آ پہنچے۔ معلوم ہوا کہ بادشاہ کی ایک غزل ہے۔ اس کے ہر شعر میں ایک ایک مصرع پیوند کر کے مثلث کرنا چاہتے ہیں۔ مگر ایجاد یہ ہے کہ مصرع جو لگے بموجب رواج قدیم کے اوپر نہ لگے بلکہ ہر شعر کے نیچے ایک ایک مصرع لگے کہ جس سے گویا ہر بند میں ایک ایک مطلع پیدا ہوتا جائے۔ غرض بادشاہ نے غزل انھیں دی کہ استاد اس پر مصرع لگا دو، انھوں نے قلم اٹھا کر ایک شعر پر نظر کی اور فوراً مصرع لگا دیا۔ اسی طرح دوسرے میں تیسرے میں مسلسل غزل تمام کر کے جتنی دیر میں نظر ڈالی بے تامّل ساتھ ہی مصرع لکھتے گئے اور اسی وقت پڑھ کر سنائی۔ سب حیران ہو گئے بلکہ مرزا شاہ رخ نے کہا کہ استاد آپ گھر سے کہہ کر لائے تھے۔ بادشاہ بولے، بھلا انھیں کیا خبر تھی کہ یہاں کیا ہو رہا ہے، خصوصاً جس ھال میں ایجاد بھی ایسا نیا ہو (دیکھو صفحہ ۲۲۶)۔

نقل : برسات کا موسم تھا، بادشاہ بموجب معمول کے قطب صاحب گئے ہوئے تھے۔ مرزا فخرو بادشاہ کے صاحبزادے کہ اخیر کو ولی عہد بھی ہو گئے تھے ایک دن وہاں چاندنی رات میں تلاؤ کے کنارے چاندنی کی بہار دیکھ رہے تھے، استاد مرحوم پاس کھڑے تھے۔ انھیں بھی شعر کا شوق تھا اور استاد کے شاگرد تھے۔ ان کی زبان سے یہ مصرع نکلا۔ ع

"چاندنی دیکھے اگر وہ مہ جبیں تالاب پر"​

ان سے کہا کہ استاد اس پر مصرع لگائیے۔ انہوں نے فوراً کہا۔ ع

"تابِ عکسِ رخ سے پانی پھیر دے مہتاب پر"​

نواب حامد علی خاں کے خسر نواب فضل علی خاں مرحوم بھی محبت و اخلاق سے ملا کرتے تھے۔ ایک دن دیوان خاص میں کھڑے ہوئے شعر سنتے سناتے تھے۔ نواب موصوف نے خواجہ وزیر کا مطلع پڑھا۔

جانور جو ترے صدقہ میں رہا ہوتا ہے

اے شہ حسن وہ چھٹتے ہی ہما ہوتا ہے​

استاد مرحوم نے کہا کہ صدقہ میں اکثر کوا چھڑواتے ہیں اس لئے زیادہ تر یہ مناسب ہے۔

زاغ بھی گر ترے صدقہ میں رہا ہوتا ہے

اے شہ حسن وہ چھٹتے ہی ہما ہوتا ہے

(ایسی بہت سے اصلاحیں روز ہوتی تھیں، لکھی جائیں تو ایک کتاب بن جائے۔)​

ایک دفعہ قلعہ میں مشاعرہ تھا، حکیم آغا جان عیش (حکیم آغا جان صاحب عیش بادشاہی اور خاندانی طبیب تھے، زیور علم اور لباس کمال سے آراستہ صاحب اخلاق، خوش مذاق، شیریں کلام، شگفتہ مزاج جب دیکھو یہی معلوم ہوتا تھا کہ مسکرا رہے ہیں۔ ساتھ ہی اس کے شعر کا عشق تھا۔ طبیعت ایسی ظریف و لطیف اور لطیفہ سنج پائی تھی کہ جسے شاعری کی جان کہتے ہیں، غزل صفائی کلام شوخی مضامین اور حسن محاورہ سے پھولوں کی چھڑی معلوم ہوتی تھی اور زبان گویا لطائف و ظرائف کی پھلچڑی۔ میں نے دو دفعہ استاد کے ساتھ مشاعرہ میں دیکھا تھا، ہائے افسوس اس وقت کی تصویر آنکھوں میں پھر گئی، قد میانہ، خوش اندام، سر پر ایک ایک انگل بال سفید، ایسی ہی داڑھی، اس گوری سرخ و سفید رنگت پر کیا بھلی معلوم ہوتی تھی۔ گلے میں ململ کا کرتہ جیسے چنبیلی کا ڈھیر پڑا ہنس رہا ہے۔ میں ان دنوں دہلی کالج میں پڑھتا تھا، استاد مرحوم کے بعد ذوق سخن اور ان کےکمال کی کشش نے کھینچ کر ان کی خدمت میں بھی پہنچایا۔ اب ان صورتوں کو آنکھیں ترستی ہیں اور نہیں پاتیں۔ ۱۸۵۷؁ء کے غدر کے چند روز بعد دنیا سے انتقال کیا، خدا مغفرت کرے۔ ہدہد الشعراء ایک شخص عبد الرحمٰن نامی پورب کی طرف سے دلی میں آئے اور حکیم صاحب کے پاس ایک مکان میں مکتب تھا اسمیں لڑکے پڑھانے لگے۔ حکیم صاحب کے خویش و اقارب میں سے بھی لڑکے وہاں پڑھتے تھے۔ ان میں سے ایک لڑکا سکندر نامہ پڑھا کرتا تھا۔ حکیم صاحب کا معمول تھا آٹھویں ساتویں دن رات کو ہر ایک لڑکے کا سبق سنا کرتے تھے۔ سکندر نامہ کا سبق جو سنا تو عجائب و غرائب مضامین سننے میں آئے، فرمایا کہ اپنے مولوی صاحب کو کسی وقت ہمارے پاس بھیجنا۔ وہ دوسرے ہی دن تشریف لائے۔ حکیم صاحب آخر حکیم تھے، ملاقات ہوئی تو اول قیافہ سے پھر گفتگو نبض دیکھی، معلوم ہوا کہ شدید سے زیادہ مادّہ نہیں مگر یہ طرفہ معجون انسان تھوڑی سی ترکیب میں رونق محفل ہو سکتا ہے، پوچھا کہ آپ کچھ شعر کا بھی شوق رکھتے ہیں؟ مولوی صاحب نے کہا کہ کیا مشکل بات ہے! ہو سکتا ہے، حکیم صاحب نے کہا کہ ایک جگہ مشاعرہ ہوتا ہے، ۸، ۹ دن باقی ہیں۔ یہ طرح مصرع ہے، آپ بھی غزل کہیے تو مشاعرہ میں لے چلیں۔ وہ مشاعرے کو بھی نہ جانتے تھے۔ اس کی صورت بیان کی۔ مولوی صاحب نے کہا کہ اس عرصہ میں بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ غزل کہہ کر لائے تو سبحان اللہ اور مولوی صاحب ہی تخلص رکھا۔ حکیم صاحب کی طبع ظریف کے مشغلہ کو ایسا الّو خدا دے، بہت تعریف کی۔ غزل کی جابجا اصلاحیں دے کر خوب نون مرچ چھڑکا۔ مولوی صاحب بہت خوش ہوئے۔ یہ دیکھ کر حکیم صاحب کو اطمینان ہوا۔ مولوی صاحب کی چگی داڑھی اس پر لمبی اور نکیلی سَر منڈا ہوا اس پر نکّو عمامہ، فقط کٹ بڑھی نظر آتے تھے۔ حکیم صاحب نے کہا کہ شعراء کو تخلص بھی ایسا چاہیے کہ ظریفانہ و لطیفانہ ہو اور خوشنما ہو اور شان و شکوہ کی عظمت سے تاجدار ہو۔ بہتر ہے کہ آپ ہدہد تخلص کریں۔ حضرت سلیمان کا رازدار تھا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔ گام تھا وغیرہ وغیرہ، پنیں و پنہاں مولوی صاھب نے بہت خوشی سے منظور فرمایا۔ مشاعرے کے دن جلسہ میں گئے۔ جب انکے سامنے شمع آئی تو حکیم صاحب نے ان کی تعریف میں چند فقرے مناسب وقت فرمائے۔ سب متوجہ ہوئے۔ جب انہوں نے غزل پڑھی تو تمسخر نے تالیاں بجائیں، ظرافت نے ٹوپیاں اچھالیں اور قہقہوں نے اتنا شور و غل مچایا کہ کسی غزل اتنی تعریف کا جوش نہ ہوا تھا۔ مولوی صاحب بہت خوش ہوئے۔ چند روز اس طرح مشاعرہ کو اور بعض امرا کے جلسوں کو رونق دیتے رہے مگر مکتب کے کام سے جاتے رہے۔ حکیم صاحب نے سوچا کہ ان کے گزارے کے لئے کوئی نسخہ ضرور تجویز کرنا چاہیے۔ ان سے کہا کہ بادشاہ کی تعریف میں ایک قصیدہ کہو، تمھیں ایک دن دربار میں لے چلیں۔ دیکھو رزاق مطلق کیا سامان کرتا ہے۔ قصیدہ تیار ہوا اور حکیم صاحب نے ہدہد کو اڑا کر دربار میں پہنچا دیا۔ افسوس کہ اب نہیں مل سکتا۔ ۴ شعر یاد ہیں۔ شتے نمونہ از خردارے تحفہ احباب کرتا ہوں۔

جو تیری مدح میں میں چونچ اپنی وا کر دوں
تو رشک باغ ارم اپنا گھونسلا کر دوں

جو آ کے ریز کرے میرے آگے مسیقار
تو ایسے کان مردزدوں کہ بے سرا کر دوں

جو سرکشی کرے آگے مرے ہُما آ کر
تو اس کے نوچ کے پر شکل نیولا کر دوں

میں کھانے والا ہوں نعمت کا اور میرے لئے
فلک کہے ہے مقرر میں یا برا کر دوں​

بادشاہوں اور امیروں کو مسخرا پن بلکہ زمانہ کی طبیعت کو غذا موافق ہے۔ ظفرؔ تو خود شاعر تھے۔ خطاب عطا فرمایا۔ طائر الارکین شہپر الملک ہدہد الشعرء امنقار جنگ بہادر اور معہ ۷ روپیہ مہینہ بھی عطا کر دیا کہ ان کی شاعری کی بنیاد قائم ہو گئی۔ پھر تو سر پر لمبے لمبے بال ہو گئے، ان میں چنبیلی کا تیل پڑنے لگا۔ داڑھی دو شاخہ ہو کر کانوں سے باتیں کرنے لگی۔

ایک برسات نے ان کا مکان گرا دیا۔ گھونسلے کی تلاش میں بھٹکتے پھرے، مکان ہاتھ نہ آیا۔ حکیم صاھب سے شکایت کی، فرمایا کہ بادشاہی مکانات شہر میں بہتیرے پڑے ہیں، کیا ہدہد کے گھونسلے کو بھی ان میں جگہ نہ ملے گی۔ دیکھو بندوبست کرتے ہیں۔ جھٹ عرضی موزوں ہوئی۔ چند متفرق اشعار اسکے یاد ہیں۔

جز ترے شاہنشہا کہہ کس کے آگے روئیے
کس کو کہیے جا کے یہ غم کو ہمارے کھوئیے

تجھ کو ہے حق نے کیا ملک سخن کا شہسوار
ہیں بجا کرنے سمند طبع کویاں پوئیے

حیف آتا ہے کہ فن شعر میں کیوں کھوئی عمر
کاش کہ ہم سیکھتے اس سے بنانے بورئیے

سنگلاخ ایسی زمیں ہے سوچ اے دل تاکجا
فکر کیجیے صرف اس میں اور پتھر ڈھوئیے

رشتہ عمر شہنشاہ جہاں ہووے دراز
یا خدا کھلتے رہیں دنیا میں جب تک سوئیے

دیدے اس کو بھی زمیں تھوڑی کہ بن گھر گھونسلے
مارتا پھرتا ترا ہدہد ہے ٹاپک ٹوئیے​

ایک سال سرکار شاہی کو تنخواہ میں دیر لگی۔ ہدہد نے حکیم صاحب سے شکایت کی۔ یہاں جسطرح امراض شکم کے لئے علاج تھے ہی، اسی طرح بھوک کے تدارک کا بھی نسخہ تیار تھا۔ ایک قطعہ راجہ دیبی سنگھ کی مدح میں تیار ہوا کہ انھیں دنوں میں خانسامانی کی تنخواہ انھیں سپرد ہوئی تھی۔ ۴ شعر اسوقت یاد ہیں، وہی لکھتا ہوں۔

جہاں میں آج دیبی سنگھ تو راجوں کا راجہ ہے
خدا کا فضل ہے جو قلعہ میں تو آ براجا ہے

سلیماں نے ہے تیرے ہاتھ میں دی رزق کی کنجی
تو سرداروں کا سردار اور مہاراجوں کا راجا ہے

شکم اہل جہاں کے سب ہیں شکرانہ بجا لاتے
دمامہ تیرا جا کر گنبد گردوں پہ باجا ہے

کسی کو دے نہ دے تنخواہ تو مختار ہے اس کا
مگر ہدہد کو دیدے کیوں؟ یہی ہدہد کا کھاجا ہے​

حکیم صاحب ہمیشہ فکر سخن میں رہتے تھے۔ اس میں جو ظرافت کے مضامین خیال میں آتے انھیں موزوں کر کے ہدہد کی چونچ میں دیتے تھے، وہ ان کے بلکہ دو چار اور جانوروں کے لئے بھی بہت ہے، چند شعر یاد ہیں، تفریح طبع کے لئے لکھتا ہوں :

ہدہد کا مذاق ہے نرالا سب سے
انداز ہے اک نیا نکالا سب سے

سر دفترِ لشکر سلیماں ہے یہ
اڑتا بھی ہے دیکھو بالا بالا سب سے

راست آئینوں کو نفرت ہے کج آئینوں سے
تیر نکلا جو کمان سے تو گریزاں نکلا

آشیاں سے جو غزل پڑھنے کو ھدھدؔ آیا
خل پڑا پیشرو ملک سلیماں نکلا​

حکیم صاحب کے اشارے پر ہدہد بلبلان سخن کو ٹھونگیں بھی مارتا تھا چنانچہ بعض غزلیں سر مشاعرہ پڑھتا تھا جس کے الفاظ نہایت شستہ اور رنگین، لیکن شعر بالکل بے معنی اور کہہ دیتا تھا کہ یہ غالبؔ کے انداز میں غزل لکھی ہے۔ ایک مطلع یاد ہے۔

مرکزِ محور گردوں بہ لبِ آب نہیں

ناخن قوس و قزح شبہ مضراب نہیں​

غالبؔ مرحوم تو بہتے دریا تھے، سنتے تھے اور ہنستے تھے۔ مومنؔ خاں وغیرہ نے ہدہد کے شکار کو ایک باز تیار کیا۔ انھوں نے اس کے بھی پر نوچے۔ مشاعرہ میں خوب خوب جھپتے ہوئے مگر اس کے شعر مشہور نہیں ہوئے۔ ہدہد کے کئی شعر یاد ہیں۔ پہلا مطلع بھول گیا۔

جسے کہتے ہیں ہدہدؔ وہ تو نر شیروں کا دادا ہے
مقابل تیرے کیا ہو تو تو اک جرہ کی مادہ ہے

گر اب کے بازڑی میداں میں آئی سامنے میرے
تو دُم میں پَر نہ چھوڑوں گا یہی میرا ارادہ ہے

مقرر باز جو اپنا تخلص ہے کیا تو نے
ہوا معلوم یہ اس سے کہ گھر تیرا کشادہ ہے

ادب اے بے ادب ابتک نہیں تجھ کو خبر اس کی
کہ ہدہد سب جہاں کے طائروں کا پیرزادہ ہے​

چند روز بعد باز اڑ گیا۔ یاروں نے ایک کوّا تیار کیا۔ زاغؔ تخلص رکھا، انھوں نے اس کی بھی خوب خبر لی۔ وہ بھی چند روز میں آندھی کا کوا ہو کر غائب غلہ ہو گیا۔

جون آیا ہے بدل اب کی عدو کوّے کی
اس کی ہے پاؤں سے تا سر وہی خو کوّے کی

وہی کاں کاں وہی کیں کیں وہی ٹاں ٹاں اسکی
بات چھوڑی نہیں ہاں اک سرمو کوّے کی

پہلے جانا تھا یہی سب نے کہ کوّا ہو گا
پھر یہ معلوم کیا، ہے یہ سو کوّے کی

بن کے کوا جو یہ آیا ہے تو اے ہدہد شاہ
دم کتر دینے کو کچھ کم نہیں تو کوّے کی​

جو جانور ہدہد کے مقابل ہوتے تھے، انھیں استقلال نہ تھا۔ چند روز میں ہوا ہو جاتے تھے۔ کیونکہ پالنے والوں کی طبیعتوں میں استقلال اور مادہ نہ تھا۔ ہمیشہ ان کے ڈھب کی غزل کہہ کر مشغلہ جاری رکھنا اور مشاعرے کی غزل کا حسب حال تیار کرنا کچھ آسان کام نہیں ہے۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ ان کے آزوقہ کو استقلال نہ تھا۔ ان کا آزوقہ سرکار بادشاہی سے تو مقرر ہی تھا اور ادھر ادھر سے چرچگ کر جو مار لاتے تھے وہ ان کی چاٹ تھی۔) کہ کہن سال مشاق اور نہایت زندہ دل شاعر تھے۔ استاد کے قریب ہی بیٹھتے تھے، زمین غزل، یار دے، بہار دے، روزگار دے، حکیم آغا جان عیشؔ نے ایک شعر اپنی غزل میں پڑھا۔

اے شمع صبح ہوتی ہے روتی ہے کس لئے

تھوڑی سی رہ گئی ہے اسے بھی گزار دے​

ان کے ہاں بھی اس مضمون کا ایک شعر تھا، باوجود اس رتبہ کے لحاظ اور پاس مروت حد سے زیادہ تھا۔ میرے والد مرحوم پہلو میں بیٹھے تھے، ان سے کہنے لگے کہ مضمون لڑ گیا۔ اب میں وہ شعر نہ پڑھوں گا۔ انھوں نے کہا کہ کیوں نہ پڑھو، پہلے سے انھوں نے آپ کا مضمون سنا تھا نہ آپ نے ان کا، ضرور پڑھنا چاہیے۔ اس سے بھی طبیعتوں کا اندازہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک منزل پر دونوں صاحب فکر پہنچے، مگر کس کس انداز سے پہنچے، چناں چہ حکیم صاحب مرحوم کے بعد ہی ان کے آگے شمع آئی۔ انھوں نے پڑھا۔

اے شمع تیری عمر طبیعی ہے ایک رات

رو کر گزار یا اسے ہنس کر گزار دے​

ایک دن معمولی دربار تھا، استاد بھی حاضر تھے۔ ایک مرشد زادے تشریف لائے وہ شاید کسی اور مرشد زادی یا بیگمات میں سے کسی بیگم صاحب کی طرف سے کچھ عرض لے کر آئے تھے، انھوں نے آہستہ آہستہ بادشاہ سے کچھ کہا اور رخصت ہوئے۔ حکیم احسن اللہ خاں بھی موجود تھے۔ انھوں نے عرض کی، صاحب عالم اس قدر جلدی یہ آنا کیا تھا اور یہ تشریف لے جانا کیا تھا۔ صاحب عالم کی زبان سے اس وقت نکلا کہ "اپنی کوشی نہ نہ اپنی خوشی چلے" بادشاہ نے استاد کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ استاد دیکھنا کیا صاف مصرع ہوا ہے۔ استاد نے بے توقف عرض کی کہ حضور :

لائی حیات آئے، قضا لے چلی چلے

اپنی خوشی نہ آئے، نہ اپنی خوشی چلے​

یہ اواخر عمر کی غزل ہے۔ اس کے دو تین برس بعد انتقال ہو گیا۔

ایک دن دربار سے آ کر بیٹھے، میں جو پہنچا افسردہ ہو کر کہنے لگے کہ آج عجیب ماجرا گزرا۔ میں جو حضور میں گیا تو محل میں تھے۔ وہیں بلا لیا اور مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے استاد آج مجھے دیر تک ایک بات کا افسوس رہا۔ میں نے حال پوچھا، کہا کہ جو قصیدہ تم نے ہمارے لئے کہا تھا اس کے وہ اشارے آج مجھے یاد آ گئے۔ ان کے خیالات سے طبیعت کو عجب لطف حاصل ہوا۔ ساتھ ہی خیال ایا کہ اب تم یہ قصیدے ہمارے لئے کہتے ہو، ہم مر جائیں گے تو جو تخت پر بیٹھے گا اس کے لئے کہوگے، میں نے عرض کی کہ حضور کچھ تردد نہ فرمائیں، خیمہ پیچھے گرتا ہے، میخیں اور طنابیں پہلے ہی اکھڑ جاتی ہیں، ہم حضور سے پہلے ہی اٹھ جائیں گے۔ اور حضور خیال فرمائیں کہ عرش آرامگاہ کے دربار کے لوگ حضور کے دربار میں کہاں تھے؟ فردوس منزل کے امراء ان کے عہد میں کہاں تھے، عرش منزل کے فردوس منزل کے دربار میں کہاں تھے؟ فردوس منزل کے امیر عرش آرامگاہ کے دربار میں کہاں تھے؟ عرش آرامگاہ کے امرا آج حضور کے دربار میں کہاں ہیں، بس یہی خیال فرما لیجیے جو جس کے ساتھ ہوتے ہیں وہ اسی کے ساتھ جاتے ہیں۔ نیا میر مجلس نئی مجلس جماتا ہے اور اپنا سامانِ مجلس بھی اپنے ہی ساتھ لاتا ہے۔ یہ سن کر حضور بھی آبدیدہ ہوئے میں بھی آبدیدہ ہوا مگر خیال مجھے یہ آیا کہ دیکھو ہم ہمیشہ نماز کے بعد حضور کی سلامتی کی دعائیں مانگتے ہیں، خدا شاہد ہے اپنا خیال اس طرح آج تک کبھی نہیں آیا، حضور کو ہمارا خیال بھی نہیں میاں! دنیا میں کوئی کسی کا نہیں ہے۔

شیخ مرحوم ضعف جسمانی کے سبب سے روزے نہ رکھتے تھے مگر اس پر بھی کسی کے سامنے کھاتے پیتے نہ تھے، کبھی دوا یا شربت یا پانی بھی پینا ہوتا، کوٹھے پر جا کر یا گھر میں جا کر پی آتے، ایک دفعہ میں نے پوچھا، کہا میاں خدا کے گناہگار ہیں وہ عالم نہاں و آشکار کا ہے۔ اس کی تو شرم نہیں بھلا بندے کی شرم تو رہے۔

رمضان کا مہینہ تھا، گرمی کی شدّت، عصر کا وقت، نوکر نے شربت نیلوفر کٹورے میں گھول کر کوٹھے پر تیار کیا اور کہا کہ ذرا اوپر تشریف لے چلئے، چونکہ وہ اس وقت کچھ لکھوا رہے تھے، مصروفیت کے سبب سے نہ سمجھے اور سبب پوچھا، اس نے اشارہ کیا، فرمایا کہ لے آ یہیں، یہ ہمارے یار ہیں، ان سے کیا چھپانا۔ جب اس نے کٹورہ لا کر دیا، تو یہ مطلع کہا کہ فی البدیہہ یہ واقع ہوا تھا۔

پلا مے آشکارا ہم کو کس کی ساقیا چوری

خدا کی جب نہیں چوری تو پھر بندہ کی کیا چوری​

محبوب علی خاں خواجہ سرا سرکار بادشاہی میں مختار تھے اور کیا محل کیا دربار دونوں جگہ اکتیار قطعی رکھتے تھے مگر بشدت جوا کھیلتے تھے۔ کسی بات پر ناخوشی ہوئی، میاں صاحب نے حج کا ارادہ کیا۔ ایک دن میں استاد مرحوم کے پاس بیٹھا تھا کہ کسی شخص نے آ کر کہا، میاں صاحب کعبۃ اللہ جاتے ہیں۔ آپ ذرا تامل کر کے مسکرائے اور یہ مطلع پڑھا۔

جو دل قمار خانہ میں بت سے لگا چکے

وہ کعبتیں چھوڑ کے کعبہ کو جا چکے​

والد مرحوم نے بہ نیت وقف امامباڑہ تعمیر کیا۔ ایک دن تشریف لائے، ان سے تاریخ کے لئے کہا۔ اسی وقت تامل کر کے کہا۔ تعزیت گاہ امام پوری تاریخ ہے۔ حکیم میر فیض علی مرحوم ان کے استاد بھی تھے اور انھی کا آپ علاج بھی کیا کرتے تھے۔ ایک دن میں بھی موجود تھا۔ نوکر نے آ کر کہا کہ آج میر فیض علی کا انتقال ہوا۔ بار بار پوچھا اور ایسا اضطراب ہوا کہ اٹھکر ٹہلنے لگے۔ کچھ سوچ کر دفعتہً بولے کہ "ہائے میر فیض علی" مجھ سے کہا کہ دیکھو تو یہی تاریخ ہے؟ حساب کیا تو عدد برابر تھے۔

ایک شخص نے آ کر کہا کہ میرے دوست کا نام غلام علی ہے اور باپ کا نام غلام محمد ہے۔ اس نے نہایت تاکید سے فرمایش لکھی ہے کہ حضرت سے ایسا طبحع کہلوا دو کہ جس میں دونوں نام آ جائیں۔ آپ نے سن کر وعدہ کیا اور کہا کہ دو تین دن میں آپ آئیے گا۔ انشاء اللہ ہو جاوے گا۔ وہ رخصت ہو کر چلے، ڈیوڑھی کے باہر نکلے ہوں گے جو نوکر سے کہا کہ محمد بخش کو بلانا انھیں لینا لینا۔ خوب ہوا ان کے تقاضے سے جلدی مخلصی ہو گئی۔ مجھ سے مخاطب ہو کر کہا۔ ع

پدر غلام محمد پسر غلام علی​

دیوان چند دلال نے ان کلام سن کر مصرع طرح بھیجا اور بلا بھیجا۔ غزل کہہ کر بھیجی اور مقطع میں لکھا۔

آج کل گرچہ دکن میں ہے بڑی قدر سخن

کون جائے ذوقؔ پر دلی کی گلیاں چھوڑ کر​

انھوں نے خلعت اور پانسو روپئے بھیجے، مگر یہ نہ گئے۔ ایک دن میں نے نہ جانے کا سبب پوچھا، فرمایا۔

نقل : کوئی دلی میں مہینہ بیس (۲۰) دن رہ کر چلا۔ یہاں ایک کتا ہل گیا تھا۔ وہ وفا کا مارا ساتھ ہو لیا۔ شاہدرہ پہنچ کر دلّی یاد آئی اور رہ گیا۔ وہاں کتوں کو دیکھا، گردنیں فربہ، بدن تیار، چکنی چکنی پشم، ایک کتا انھیں دیکھکر خوش ہوا اور دلی کا سمجھ کر بہت خاطر کی۔ وہاں کی بازار میں لے گیا۔ حلوائی کی دوکان سے ایک بالوشاہی اڑا کر سامنے رکھا، بھٹیارہ کے دوکان سے ایک کلہ جھپٹا، یہ ضیافتیں کھاتے اور دلی کی باتیں سناتے رہے۔ تیسرے دن رخصت مانگی۔ اس نے روکا۔ انھوں نے دلی کے سیر تماشے اور خوبیوں کے ذکر کئے۔ آخر چلے اور دوست کو بھی دلّی انے کی تاکید کر آئے۔ اسے بھی خیال رہا اور ایک دن دلی کا رخ کیا۔ پہلے ہی مرگھٹ کے کتے مردار خوار، خونی آنکھیں، کالے کالے منھ نظر آئے۔ یہ لڑتے بھرتے نکلے، دریا ملا، دیر تک کنارہ پر پھرے، آخر کود پڑے، مرکھپ کے پار پہنچے، شام ہو گئی تھی۔ شہر میں گلی کوچوں کے کتوں سے بچ بچا کر ڈیڑھ پہر رات گئی تھی جو دوست سے ملاقات ہوئی۔ یہ بیچارے اپنی حالت پر شرمائے، بظاہر خوش ہوئے اور کہا اوہو اسوقت تم کہاں؟ دل میں کہتے تھے رات نے پردہ رکھا، ورنہ دن کو یہاں کیا دھرا تھا؟ اسے لے کر اِدھر اُدھر پھرنے لگے، یہ چاندنی چوک ہے، یہ دریبہ ہے، یہ جامع ہے۔ مہمان نے کہا یار بھوک کے مارے جان نکلی جاتی ہے، سیر پھر ہو جائے گی، کچھ کھلواؤ تو سہی۔ انھوں نے کہا عجب وقت تم آئے ہو۔ اب کیا کروں؟ بارے جامع مسجد کی سیڑھیوں پر جانی کبابی مرچوں کی ہانڈی بھول گئے تھے۔ انھوں نے کہا ۔ "لو یار بڑے قسمت والے ہو" وہ دن بھر کا بھوکا تھا، منھ پھاڑ کر گرا اور ساتھ ہی منھ سے مغز تک گویا بارود اڑ گئی، چھینک کر پیچھے ہٹا اور جل کر کہا واہ یہی دلّی ہے۔ انھوں نے کہا اس چٹخارہ کے مارے تو پڑے ہیں۔

عادت تھی کہ سات آٹھ بجے مکان ضرور جاتے تھے اور تین چار چلمیں حقہ کی وہاں پیتے تھے۔ میں چھٹی کے دن اس وقت جایا کرتا تھا اور دن بھر وہیں رہتا تھا۔ مکان ضرور ڈیوڑھی میں تھا۔ پاؤں کی آہٹ پہچانتے تھے۔ پوچھتے تھے، میں تسلیم عرض کرتا، چھوٹی سی انگنائی تھی، پاس ہی چارپائی تھی بیٹھ جاتا۔ فرماتے اجی ہمارا وہ شعر اس دن تم نے کیا پڑھا تھا؟ ایک دو لفظ اس کے پڑھتے، میں سارا شعر عرض کرتا، فرماتے ہاں اب اسے یوں بنا لو۔ ایک دن ہنستے ہوئے پائخانے سے نکلے، فرمایا کہ لو جی ۳۳ برس کے بعد آج اصلاح دینی آئی ہے۔ حافظ ویران نے کہا، حضرت کیونکر؟ فرمایا ایک دن شاہ نصیرؔ مرحوم کسی شاگرد کو اصلاح دے رہے تھے۔ اس میں مصرع تھا۔ ع

"کھاتی کمر ہے تین بل ایک گدگدی کے ساتھ"​

ابتدائے مشق تھی، اتنا خیال میں آیا کہ یہاں کچھ اور ہونا چاہیے اور جب سے اکثر یہ مصرع کھٹکتا رہتا تھا۔ آج وہ نکتہ حل ہوا، عرض کی حضرت پھر کیا؟ فرمایا۔ ع

"کھاتی ہے تین تین بل اک گدگدی کے ساتھ"​

کمر کو اوپر ڈال دو، عرض کی پھر وہ کیونکر، ۳، ۴ مصرعے الٹ پلٹ گئے تھے، ایک اس وقت خیال میں ہے۔

بل بے کمر کہ زلف مسلسل کے پیچ میں

کھاتی ہے تین تین بل اک گدگدی کے ساتھ​

کابلی دروازہ پاس ہی تھا، شام کو باہر نکل کر گھنٹوں ٹہلتے تھے۔ میں اکثر ہوتا تھا، مضامین کتابی، خیالات علمی افادہ فرماتے، شعر کہتے۔ ایک دن بادشاہ کی غزل کہہ رہے تھے، تیر ہمیشہ، تصویر ہمیشہ، سوچتے سوچتے کہنے لگے، تم بھی تو کچھ کہو، میں نے کہا، کیا عرض کروں، فرمایا میاں اسی طرح آتا ہے، ہوں ہاں، غوں غاں، کچھ تو کہو، کوئی مصرع ہی سہی، میں نے کہا۔ ع

سینہ سے لگائے تری تصویر ہمیشہ​

ذرا تامل کر کے کہا ہاں درست ہے۔

آ جائے اگر ہاتھ تو کیا چین سے رہیے

سینہ سے لگائے تری تصویر ہمیشہ​

اب جو کبھی دلّی جانا ہوتا ہے اور اس مقام پر گزر ہوتا ہے تو آنسو نکل پڑتے ہیں۔ اس مطلع پر حضور نے کئی دفعہ جال مارے مگر یہ ٹال گئے۔ مضمون آ نہ سکا۔ مطلع انھوں نے دیا۔

کیا کہوں اس ابروے پیوستہ کے دل بس میں ہے

اک طعمہ، مچھلیاں دو، کش مکش آپس میں ہے​

بادشاہ کے چار دیوان ہیں، پہلے کچھ غزلیں، شاہ نصیرؔ کی اصلاحی ہیں، کچھ میر کاطم حسین بیقرارؔ کی ہیں۔ غرض پہلا دیوان نصف سے زیادہ اور باقی دیوان سرتاپا حضرت مرحوم کے ہیں۔ جن سنگلاخ زمینوں میں قلم چلنا مشکل ہے ان کا نظام و سرانجام اس خوبصورتی سے کیا ہے کہ دل شگفتہ ہوتے ہیں۔ والد مرحوم کہا کرتے تھے کہ بادشاہ تمہارا زمین کا بادشاہ ہے، طرحیں خوب نکالتا ہے۔ مگر تم سرسبز کرتے ہو ورنہ شور زار ہو جائے۔ مسودہ خاص میں کوئی شعر پورا، کوئی ڈیڑھ مصرع کوئی ایک کوئی آدھا مصرع، فقط بحر اور ردیف قافیہ معلوم ہو جاتا تھا، باقی بخیر یہ ان ہڈیوں پر گوشت پوست چڑھا کر حسن و عشق کی پتلیاں بنا دیتے تھے۔ ایجادی فرمائشوں کی حد نہ تھی، چند شعر اس غزل کے لکھتا ہوں، جس کے ہر شعر کے نیچے مصرع لگایا ہے۔

یا تو افسر مرا شاہا نہ بنایا ہوتا
یا مرا تاج گدایا نہ بنایا ہوتا

ورنہ ایسا جو بنایا نہ بنایا ہوتا

نشہ عشق کا گر ذوقؔ دیا تھا مجھکو
عمر کا تنگ نہ پیمانہ بنایا ہوتا

دل کو میرے خم و خمخانہ بنایا ہوتا

اس خرد نے مجھے سرگشہ و حیران کیا
کیوں خرد مند بنایا نہ بنایا ہوتا

تو نے اپنا مجھے دیوانہ بنایا ہوتا

روز معمورہ دنیا میں خرابی ہے ظفر
ایسی بستی سے تو ویرانہ بنایا ہوتا

بلکہ بہتر تو یہی تھا نہ بنایا ہوتا​

ایک بڈھا چورن مرچن کی پڑیاں بیچتا پھرتا تھا اور آواز دیتا تھا۔

"نرے من چلے کا سودا ہے کٹھا اور میٹھا​

حضور نے سنا۔ ایک دو مصرعے اس پر لگا کر استاد کو بھیج دیئے۔ انھوں نے دس دہرے لگا دیئے۔ حضور نے لے رکھی ہے کئی کنچنیاں ملازم تھیں، انھیں یاد کرا دیئے۔ دوسرے دن بچہ بچہ کی زبان پر تھے۔ دو بند یاد رہ گئے۔

لے ترے من چلے کا سودا ہے کھٹا اور میٹھا

کنجڑے کی سی باٹ ہے دنیا جنس ہے ساری اکٹھی
میٹھی چاہے میٹھی لے لے، کھٹی چاہے کھٹی

لے ترے من چلے کا سودا ہے کھٹا اور میٹھا

روپ رنگ پر پھول نہ دل میں دیکھ عقل کے بیری
اوپر میٹھی، نیچے کھٹی، انبوا کی سی کیری

لے ترے من چلے کا سودا ہے کھٹا اور میٹھا​

ایک فقیر صدا کہتا "کچھ راہ خدا دے جا، جا تیرا بھلا ہو گا" حضور کو پسند آئی۔ ان سے کہا، انھوں نے بارہ دہرے اس پر لگا دیئے۔ مدتوں تک گھر گھر سے اسی کے گانے کی آواز آتی تھی اور گلی گلی لوگ گاتے پھرتے تھے۔ حافظ ویران کو خدا سلامت رکھے، انہی نے یہ شعر بھی لکھوائے۔

کچھ راہ خدا دے جا، جا تیرا بھلا ہو گا

محتاج خرا باقی یا پاک نمازی ہے
کچھ کر نہ نظر اس پر، واں نکتہ نوازی ہے

کچھ راہ خدا دے جا، جا تیرا بھلا ہو گا

دنیا کے کیا کرتا ہے سینکڑوں تو دھندے
پر کام خدارا بھی کر لے کوئی یاں بندے

کچھ راہ خدا دے جا، جا تیرا بھلا ہو گا

جو رب نے دیا تجھ کو تو نام پہ رب کے دے
گریاں رو دیا تو نے، واں دیویگا کیا بندے

کچھ راہ خدا دے جا، جا تیرا بھلا ہو گا

دیوے گا اسی کو تو وہ جس کو ہے دلواتا
پر ہے یہ ظفر تجھ کو آواز سنا جاتا

کچھ راہ خدا دے جا، جا تیرا بھلا ہو گا

دنیا ہے سرا اسمیں تو بیٹھا مسافر ہے
اور جانتا ہے یاں سے جانا تجھے آخر ہے

کچھ راہ خدا دے جا، جا تیرا بھلا ہو گا​

اسی طرح کی ہزاروں چیزیں تھیں، ٹپے، ٹھمریاں، پہلیاں، سیٹھنیاں، کہاں تک لکھوں، ایک دن ٹہل رہے تھے، حافظ ویران ساتھ تھے۔ بتقاضائے استنجا بیٹھ گئے اور وقت معین سے زیادہ دیر ہوئی۔ انھوں نے قریب جا کر خیال کیا تو کچھ گنگنا رہے ہیں اور چٹکی سے جوتی پر کھٹ کھٹ کرتے جاتے ہیں، پوچھا کہ ابھی آپ فارغ نہیں ہوئے، فرمایا کہ حضور نے چلتے ہوئے ایک ٹھمری کے دو تین انترے سنائے تھے کہ اسے پورا کر دینا۔ اسوقت اس کا خیال آ گیا۔ پوچھا کہ یہ جوتی پر آپ چٹکی کیوں مارتے تھے، فرمایا کہ دیکھتا تھا کہ اس کے لفظ تال پر ٹھیک بیٹھتے ہیں یا نہیں؟

حافظ ویران کہتے ہیں، کہ ایک دن عجب تماشہ ہوا، آپ بادشاہ کی غزل کہہ رہے تھے، مطلع ہوا کہ :

ابرو کی اس کے بات ذرا چل کے تھم گئی

تلوار آج ماہ لقا چل کے تھم گئی​

دو تین شعر ہوئے تھے کہ خلیفہ اسمٰعیل دربار سے پھر کر آئے اور کہا کہ اس وقت عجب معرکہ دیکھا، استاد مرحوم متوجہ ہوئے، انھوں نے کہا کہ جب میں بھوانی شنکر کے چھتے کے پاس پہنچا تو کھاری باؤلی کے رخ پر دیکھا کہ دو تین آدمی کھڑے ہیں اور آپس میں تکرار کر رہے ہیں، باتوں باتوں میں ایسی بگڑی کہ تلوار کھچ گئی اور تین آدمی زخمی بھی ہوئے۔ یہاں چونکہ غزل کے شعر حافظ ویران سن رہے تھے، ہنس کر بولے کہ حضرت آپ کیا وہاں موجود تھے، آہستہ آہستہ سے فرمایا کہ یہیں بیٹھے بیٹھے سب کچھ ہو جاتا ہے، اس سے میرا مطلب یہ نہیں کہ انھیں کرامات تھی یا وہ غیب داں تھے، ایک حسن اتفاق تھا، اہل ذوق کے لطف طبع کے لئے لکھ دیا۔ اس سے بڑھکر یہ ہے کہ ایکدن حضور میں غزل ہوئی جس کا مطلع تھا :

آج ابرو کی ترے تصویر کھنچکر رہ گئی

سنتے ہیں بھوپال میں شمشیر کھنچکر رہ گئی​

پھر معلوم ہوا کہ اسی دن بھوپال میں تلوار چلی تھی۔ ایسے معاملے کتب تاریخ اور تذکروں میں اکثر منقول ہیں، طول کلام کے خیال سے قلم انداز کرتا ہوں۔

ایک دفعہ دوپہر کا وقت تھا، باتیں کرتے کرتے سو گئے، آنکھ کُھلی تو فرمایا کہ ابھی خواب میں دیکھا کہیں آگ لگی ہے۔ اتنے میں خلیفہ صاحب آئے اور کہا کہ پیر بخش سوداگر کی کوٹھی میں آگ لگ گئی تھی، بڑی خیر ہوئی کہ کچھ نقصان نہیں ہوا۔

ایک شب والد مرحوم کے پاس آ کر بیٹھے، کہا کہ بادشاہ کی غزل کہنی ہے، لاؤ یہیں کہہ لیں، کئی فرمائشیں تھیں، ان میں سے یہ طرح کہنی شروع کی۔ "محبت ہے، صورت ہے، مصیبت ہے" میں نے کہا حضرت زمین شگفتہ نہیں، سکوت کر کے فرمایا "کہنے والے شگفتہ کر ہی لیا کرتے ہیں۔ پھر یہ دو مطلع پڑھے۔

نہ بھول اے آرسی گر یار کو تجھ سے محبت ہے

نہیں ہے اعتبار اسکا یہ منھ دیکھ کی الفت ہے


بگولے سے جسے آسیب اور صرصر سے رحمت ہے

ہماری خاک یوں برباد ہو اے ابر رحمت ہے​

اتفاق : فرماتے تھے کہ ایک دن بادشاہ نے غزل کا مسودہ دیا اور فرمایا کہ اسے ابھی درست کر کے دے جانا، موسم برسات کا تھا، ابر آ رہا تھا، دریا چڑھاؤ پر تھا، میں دیوان خاص میں جا کر اسی رخ میں ایک طرف بیٹھ گیا اور غزل لکھنے لگا۔ تھوڑی دیر کے بعد پاؤں کی آہٹ معلوم ہوئی، دیکھا تو پشت پر ایک صاحب دانائے فرنگ کھڑے ہیں، مجھ سے کہا، آپ کیا لکھتا ہے؟ میں نے کہا غزل ہے۔ پوچھا آپ کون ہے؟ میں نے کہا کہ نظم میں حضور کی دعاگوئی کیا کرتا ہوں، فرمایا کس زبان میں؟ میں نے کہا اردو میں۔ پوچھا آپ کیا کیا زبانیں جانتا ہے؟ میں نے کہا کہ فارسی عربی بھی جانتا ہوں۔ فرمایا ان زبانوں میں بھی کہتا ہے، میں نے کہا کوئی خاص موقعہ ہو تو اس میں بھی کہنا پڑتا ہے، ورنہ اردو ہی میں کہتا ہوں کہ یہ میرے اپنی زبان ہے۔ جو کچھ انسان اپنی زبان میں کر سکتا ہے غیر کی زبان میں نہیں کر سکتا، پوچھا آپ انگریزی جانتا ہے، میں کہا نہیں، فرمایا کیوں نہیں پڑھا؟ میں نے کہا ہمارا لب و لہجہ اس سے موافق نہیں، وہ ہمیں آتی نہیں ہے۔ صاحب نے کہا، ول یہ کیا بات ہے، دیکھئے ہم آپ کا زبان بولتے ہیں۔ میں نے کہا، پختہ سالی میں غیر زبان نہیں آ سکتی، بہت مشکل معاملہ ہے۔ انھوں نے پھر کہا، ول، ہم آپ کی تین زبان ہندوستان میں آ کر سیکھا۔ آپ ہمارا ایک زبان نہیں سیکھ سکتے، یہ کیا بات ہے؟ اور تقریر کو طول دیا۔ میں نے کہا صاحب ہم زبان کا سیکھنا اسے کہتے ہیں کہ اس میں بات چیت، ہر قسم کی تحریر تقریر اس طرح کریں، جس طرح خود اہل زبان کرتے ہیں، آپ فرماتے ہیں، ام آپ کا تین زبان سیکھ لیا، بھلا یہ کیا زبان ہے اور کیا سیکھنا ہے، اسے زبان کا سیکھنا اور بولنا نہیں کہتے، اسے تو زبان کا خراب کرنا کہتے ہیں۔

غزلیں

مرے سینہ سے تیرا تیر جب اے جنگجو نکلا
وہاں زخم سے خون دہو کے حرف آرزو نکلا

مرا گھر تیرا منزل گاہ ہو ایسے کہاں طالع
خدا جانے کدھر کا چاند آج اے ماہرو نکلا

پھر اگر آسمان تو شوق میں تیرے ہی سرگرداں
اگر خورشید نکلا تیرا گرم جستجو نکلا

مئے عشرت طلب کرتے تھے ناحق آسماں سے ہم
کہ آخر جب اسے دیکھا فقط کالی سبو نکلا

ترے آتے ہی آتے کام آخر ہو گیا میرا
رہی حسرت کہ دم میرا نہ تیرے روبرو نکلا

کہیں تجھکو نہ پایا گرچہ ہم نے اک جہاں ڈھونڈا
پھر آخر دل ہی میں دیکھا بغل ہی میں تو نکلا

خجل اپنے گناہوں سے ہوں میں یانتک کہ جب رویا
تو جو آنسو مری آنکھوں سے نکلا سرخرو نکلا

گھسے سب ناخن تدبیر اور ٹوٹا سر سوزن
مگر تھا دل میں جو کانٹا نہ وہ ہرگز کبھو نکلا

اسے عیار پایا یار سمجھے ذوقؔ ہم جس کو
جسے یاں دوست اپنا ہم نے جانا وہ عدو نہ نکلا

  • -*-*-*-*-*


لکھے اسے خط میں کہ ستم اٹھ نہیں سکتا
پر ضعف سے ہاتھوں میں قلم اٹھ نہیں سکتا

بیمار ترا صورت تصویر نہالی
کیا اٹھے سر بستر غم اٹھ نہیں سکتا

آتی ہے صدائے جرس ناقہ لیلٰے
پر حیف کہ مجنوں کا قدم اٹھ نہیں سکتا

جوں دانہ روئیدہ تہ خاک ہمارا
سر زیر گرانبار الم اٹھ نہیں سکتا

ہر داغ معاصی مرا اس دامن تر سے
جوں حرف سر کاغذ نم اٹھ نہیں سکتا

اتنا ہوں تری تیغ کا شرمندہ احسان
سر میرا ترے سر کی قسم اٹھ نہیں سکتا

پردہ در کعبہ سے اٹھانا تو ہے آسان
پر پردہ رخسار صنم اٹھ نہیں سکتا

کیوں اتنا گرانبار ہے جو رکت سفر بھی
اے راہرو ملک عدم اٹھ نہیں سکتا

دنیا کا زر و مال کیا جمع تو کیا ذوقؔ
کچھ فائدہ بے دستِ کرم اٹھ نہیں سکتا

  • -*-*-*-*-*-*​


اس پر شاہ نصیر مرحوم کی غزل بھی دیکھو۔

الہٰی کس بے گنہ کو مارا سمجھ کے قاتل نے کشتنی ہے
کہ آج کوچہ میں اسکے شور باَیِّ ذَنب قَتَلتَّنِی ہے​

زمین پر نور قمر کے گرنے سے صاف اظہار روشنی ہے
کہ جو ہیں روشن ضمیر ان کو فروغ ان کی فروتنی ہے

غم جدائی میں تیرے ظالم، کہوں میں کیا مجھ پہ کیا بنی ہے
جگر گذازی ہے سینہ کادی ہے، دلخراش ہے، جانکنی ہے

بشر جو اس تیرہ خاکدان میں پڑا یہ اس کی فروتنی ہے
وگرنہ قندیل عرش میں بھی اسی کے جلوہ کی روشنی ہے

ہوئے ہیں اس اپنی سادگی سے ہم آشنا جنگ و آشتی سے
اگر نہ ہو یہ تو پھر کسی سے نہ دوستی ہے نہ دشمنی ہے

کوئی ہے کافر، کوئی مسلمان، جدا ہر اک کی ہے راہ ایمان
جو اس کے نزدیک رہبری ہے وہ اسکے نزدیک رہزنی ہے

ہوئے ہیں تر گریہ ندامت سے اسقدر آستین و دامن
کہ میری تر دامنی کے آگے عرق عرق پاکدامنی ہے

نہیں ہے قانع کو خواہش زر، وہ مفلسی میں بھی ہے توانگر
جہاں میں مانند کیمیاگر ہمیشہ محتاج دل غنی ہے

لگا نہ اس بت کدہ میں تو دل، یہ ہے طلسم شکست غافل
کہ کوئی کیسا ہی خوش شمائل صنم ہے آخر شکستنی ہے

تکلفِ منزلِ محبت نہ کر چلا چل تو بے تکلف
کہ جابجا خار زار وحشت سے زیرپا فرشِ سوزنی ہے

خدنگ مژگان سے ذوقؔ اسکے دل اپنا سینہ سپر ہے جب سے​
مثال آئینہ سخت جانی سے سینہ دیوار آہنی ہے

  • -*-*-*-*-*-*


دریائے اشک چشم سے جس آن بہہ گیا
سن لیجیو کہ عرش کا ایوان بہہ گیا

بل بے گداز عشق کا خون ہو کے دل کیساتھ
سینہ سے تیرے تیر کا پیکان بہہ گیا

زاہد شراب پینے سے کافر ہوا میں کیوں
کیا ڈیڑھ چلو پانی سے ایمان بہہ گیا

ہے موج بحر عشق وہ طوفاں کہ الحفیظ
بیچارہ مشت خاک تھا انسان بہہ گیا

دریائے عشق میں دم تحریر حال و دل
کشتی کی طرح میرا قلمدان بہہ گیا

یہ روئے پھوٹ پھوٹ کے پاؤنکے آبلے
نالہ سا ایک سوئے بیاباں بہہ گیا

تھا تو بہا میں بیش پر اس لب کے سامنے
سب مول تیرا لعل بدخشاں بہہ گیا

کشتی سوار عمر ہے بحر فنا میں جسم
جس دم بہا کے لے گیا طوفان بہہ گیا

پنجاب میں بھی وہ نہ رہی آب و تاب حسن
اے ذوقؔ پانی اب تو وہ ملتان بہہ گیا

  • -*-*-*-*-*-*-*


پاک رکھ اپنا وہاں ذکر خدائے پاک سے
کم نہیں ہرگز زباں منھ میں ترے مسواک سے

جب بنی تیر حوادث کی کماں افلاک سے
خاک کا تو وہ بنا انسان کی مشت خاک سے

جس طرح دیکھے قفس سے باغ کو مرغ اسیر
جھانکتا ہے یوں تجھے دل سینہ صدر چاک سے

تیرے صد نیم جاں کی جاں نکلتی ہی نہیں
باندھ رکھا ہے اسے بھی تو نے کیا فتراک سے

مجھ کو دوزخ، رشک جنت ہو اگر میرے لئے
واں بھی آتش ہو کسی کے روئے آتشاک سے

آفتاب حشر ہے یارب کہ نکلا گرم گرم
کوئی آنسو دل جلوں کے دیدہ نمناک سے

چشم بے پردہ کو ہو کس طرح نظارہ نصیب
جبکہ وہ پردہ نشیں پردہ کرے ادراک سے

بیت ساقی نامہ کی لکھو کوئی جائے دعا
مے پرستوں کے کفن پر چوب کلک تاک سے

عیب ذاتی کو کوئی کہتا ہے حسن عارضی
زیب بداندام کو ہو ذوقؔ کیا پوشاک سے

  • -*-*-*-*-*-*-*-*


جینا ہمیں اصلا نظر اپنا نہیں آتا
گر آج بھی وہ رشک مسیحا نہیں آتا

مذکور تری بزم میں کس کا نہیں آتا
پر ذکر ہمارا نہیں آتا نہیں آتا

دیتا دل مضطر کو تری کچھ تو نشانی
پر خط بھی ترے ہاتھ کا لکھا نہیں آتا

کیا جانے اسے وہم ہے کیا میری طرف سے
جو خواب میں بھی رات کو تنہا نہیں آتا

آیا ہے دم آنکھوں میں دم حسرتِ دیدار
پر لب پہ کبھی حرف تمنا نہیں آتا

کس دم نہیں ہوتا قلق ہجر ہے مجھ کو
کس وقت میرے منھ کو کلیجا نہیں آتا

میں جاتا جہاں سے ہوں تو آتا نہیں یانتک
کافر تجھے کچھ خوف خدا کا نہیں آتا

ہم رونے پہ آ جائیں تو دریا ہی بہائیں
شبنم کی طرح سے ہمیں رونا نہیں آتا

ہستی سے زیادہ ہے کچھ آرام عدم میں
جو جاتا ہے یاں سے وہ دوبارہ نہیں آتا

آنا ہے تو آ جا کہ کوکئی دم کی ہے فرصت
پھر دیکھئے آتا بھی ہے دم یا نہیں آتا

غافل ہے بہار چمن عمر جوانی
کر سیر کہ موسم یہ دوبارہ نہیں آتا

ساتھ ان کے ہیں ہم سایہ کی مانند ولیکن
اس پر بھی جدا ہیں کہ لپٹنا نہیں آتا

دنیا ہے وہ صیاد کہ سب دام میں اسکے
آ جاتے ہیں لیکن کوئی دانا نہیں آتا

دل مانگنا مفت اور پھر اس پہ تقاضا
کچھ قرض تو بندہ پہ تمہارا نہیں آتا

بجا ہے ولا اس کے نہ انے کی شکایت
کیا کیجئے گا فرمائیے اچھا نہیں آتا

جاتی رہے زلفوں کی لٹک دل سے ہمارے
افسوس کچھ ایسا ہمیں لٹکا نہیں آتا

جو کوچہ قاتل میں گیا پھر وہ نہ آیا
کیا جانے مزا کیا ہے کہ جینا نہیں آتا

آئے تو کہاں جائے، نہ تا جی سے کوئی جائے
جبتک اسے غصہ نہیں آتا نہیں آتا

قسمت سے ہی لاچار ہوں اے ذوقؔ وگرنہ
سب فن میں ہوں میں طاق مجھے کیا نہیں آتا

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*


مزے یہ دل کیلئے تھے نہ تھے زبان کیلئے
سو ہم نے دل میں مزے سوزش نہاں کیلئے

نہیں ثبات بلندی عز و شان کیلئے
کہ ساتھ اوج کے پستی ہے آسمان کیلئے

ہزار لفط ہیں جو ہر ستم میں جان کیلئے
ستم شریک ہوا کون آسمان کیلئے

فروغ عشق سے ہے روشنی جہاں کیلئے
یہی چراغ ہے اس تیرہ خاکدان کیلئے

صبا جو آئے خس و خار گلستان کیلئے
قفس میں کیونکہ نہ پھڑکے دل آشیاں کیلئے

دم عروج ہے کیا فکر نردبان کے لئے
کمند آہ تو ہے بام آسمان کیلئے

سدا تپش پہ تپش ہے دل تپاں کیلئے
ہمیشہ غم پہ ہے غم جان ناتواں کیلئے

حجر کے چومنے ہی پر ہو حج کعبہ اگر
تو بوسے ہم نے بھی اس سنگ آستان کیلئے

نہ چھوڑ تو کسی عالم میں راستی کہ یہ شے
عصا ہے پیر کو اور سیف ہے جواں کیلئے

جو پاس مہر و محبت یہاں کہیں بکتا
تو ہم بھی لیتے کسی اپنے مہربان کیلئے

خلش سے عشق کی ہے خار پیرہن تن زار
ہمیشہ اس ترے مجنونِ ناتواں کیلئے

تپش سے عشق کی یہ حال ہے مرا گویا
بجائے مغز ہے رباب استخواں کیلئے

مرے مزار پہ کس وجہ سے نہ برسے نور
کہ جان دی ترے روئے عرق فشاں کیلئے

الہٰی کان میں کیا اس صنم نے پھونکدیا
کہ ہاتھ رکھتے ہیں کانوں پہ سب اذاں کیلئے

نہیں ہے خانہ بدوشوں کو حاجت ساماں
اثاثہ چاہیے کیا خانہ کمال کے لئے

نہ دل رہا نہ جگر دونوں جل کے خاک ہوئے
رہا ہے سینہ میں کیا چشم خونفشان کیلئے

نہ لوح گور پہ ستوں کے ہو نہ ہو تعویذ
جو ہو تو خشت خم مےکوئی نشان کیلئے

اگر امید نہ ہمسایہ ہو تو خانہ یاس
بہشت ہے ہمیں آرام جاوداں کیلئے

وہ مول لیتے ہیں جسدم کوئی نئی تلوار
لگاتے پہلے مجھی پر ہیں امتحان کیلئے

صریح چشم سخن گو تری کہے نہ کہے
جواب صاف ہے پر طاقت و تواں کیلئے

رہے ہے ہول کہ برہم نہ ہو مزاج کہیں
بجا ہے ہول دل انکے مزاج داں کیلئے

شال نے ہے مرا جب تلک کہ دم میں دم
فغاں ہے میرے لئے اور میں فغاں کیلئے

بلند ہووے اگر کوئی میرا شعلہ آہ
تو ایک اور ہو خورشید آسمان کے لئے

چلیں ہیں دیر کو مدت میں خانقاہ سے ہم
شکست توبہ لئے ارمغان مغاں کیلئے

وبال دوش ہے اس ناتواں کو سر لیکن
لگا رکھا ہے ترے خنجر وسناں کیلئے

بیان درد محبت جو ہو تو کیوں کر ہو
زباں نہ دل کیلئے ہے نہ دل زباں کیلئے

اشارہ چشم کا تیرے یکایک اے قاتل
ہوا بہانہ مری مرگ ناگہاں کے لئے

بنایا آدمی کو ذوقؔ ایک جزو ضعیف
اور اس ضعیف سے کل کام دو جہاں کے لئے​

نواب اصغر علی خاں نسیمؔ کے مشاعرہ میں غزل مذکورہ بالا طرح ہوئی تھی اور مومن صاحب کہ ان کے استاد تھے، استاد مرحوم کی خدمت میں آئے اور بڑے اصرار سے لے گئے۔ یہ پہلا مشاعرہ تھا جو بندہ آزاد نے دیدہ شوق سے دیکھا، غالبؔ مرحوم تشریف نہیں لائے مگر غزل لکھی تھی، ان دونوں استادوں کی غزلیں بھی لکھ دی ہیں۔ اہل نظر لطف حاصل کریں۔