آب حیات/مرزا جانِ جاناں مظہر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

اگرچہ نظم کے جوش و خروش اور کثرتِ کلام کے لحاظ سے میرؔ اور سوداؔ کے ساتھ نام لیتے ہوئے تامل ہوتا ہے لیکن چونکہ صانع قدرت نے طبیعت کی لطافت اور اصلی نفاست اور ہر بات میں انداز کی خوبی اور خوب صورتی اُن کے مزاج میں رکھی تھی اور زمانہ بھی سب کا ایک تھا، اس کے علاوہ پُرانے تذکرہ نویس لکھتے ہیں بلکہ بزرگوں کی زبان سے بھی یہی سُنا کہ زبان کی اصلاح اور اندازِ سخن اور طرز کے ایجاد میں انھیں ویسا ہی حق ہے جیسا کہ سوداؔ اور میرؔ کو، اسی واسطے ان کا حال بھی اس سلسلہ میں لکھنا واجب ہے، ان کے والد عالمگیر کے دربار میں صاحبِ منصب تھے، نسب اِن کا باپ کی طرف سے محمد ابن حنیفہ سے ملتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ کے بیٹے تھے، ماں بیجاپور کے شریف گھرانہ سے تھیں، دادا بھی دربارِ شاہی میں صاحبِ منصب تھے، دادی اسد خاں وزیر عالمگیر کی خالہ زاد بہن تھیں۔ پردادا سے اکبر بادشاہ کی بیٹی منسوب ہوئی تھیں۔ اِن رشتوں سے تیموری خاندان کے نواسے تھے، 1111؁ھ میں جبکہ عالمگیر دکن پر فوج لئے پڑا تھا، ان کے والد نوکری چھوڑ کر دلی کو پھرے، یہ کالا باغ علاقہ مالوہ میں 11 رمضان کو جمعہ کے دن پیدا ہوئے۔ عالمگیر کو خبر ہوئی، آئینِ سلطنت تھا کہ امراء کے ہاں اولاد ہو تو حضور میں عرض کریں، بادشاہ خود نام رکھیں یا پیش کئے ہوئے ناموں میں سے پسند کر دیں، کسی کو خود بھی بیٹا یا بیٹی کر لیتے۔ یہ امور طرفین کے دلوں میں اتحاد اور محبت پیدا کرتے تھے، اِن کے لئے ایک وقت پر سندِ ترقی ہوتے تھے اور بادشاہوں کو ان سے وفاداری اور جاں نثاری کی امیدیں ہوتی تھیں، شادی بھی اجازت سے ہوتی تھی، کبھی ماں باپ کی تجویز کو پسند کرتے تھے، کبھی خود تجویز کر دیتے تھے۔ غرض عالمگیر نے کہا کہ بیٹا باپ کی جان ہوتا ہے، باپ مرزا جان ہے، اس کا نام ہم نے جانِ جاناں رکھا، پھر اگرچہ باپ نے شمس الدین نام رکھا، مگر عالمگیری نام کے سامنے نہ چمکا (تذکرہ گلزارِ ابراہیمی میں لکھا ہے کہ ان کا وطن اکبر آباد تھا دلی میں آ رہے تھے۔) مظہر تخلص انھوں نے آپ کیا کہ جان جاناں کے ساتھ مشہور چلا آتا ہے، مرزا جان بھی شاعر تھے اور جانی تخلص کرتے تھے۔

۱۶ برس کی عمر تھی کہ باپ مر گئے، اسی وقت سے مشتِ خاک کو بزرگوں کے گوشہ دامن میں باندھ دیا۔ ۳۰ برس کی عمر تک مدرسوں اور خانقاہوں میں جھاڑو دی، اور جو دن بہارِ زندگی کے پھول ہوتے ہیں انھیں بزرگوں کے روضوں پر چڑھا دیا۔ اس عہد میں تصوف کے خیالات اَبر کی طرح ہندوستان پر چھائے ہوئے تھے، چنانچہ قطع نظر کمالِ شاعری کے ہزارہا مسلمان بلکہ ہندو بھی اُن کے مرید تھے اور دل سے اعتقاد رکھتے تھے۔ اُن کے باب میں بہت سے لطائف ایسے مشہور ہیں کہ اگر آج کسی میں پائے جائیں تو زمانہ کے لوگ اچھا نہ سمجھیں، لیکن وہ ایک زمانہ تھا کہ صفاتِ مذکورہ داخلِ فضائل تھیں، کچھ تو اس اعتقاد سے کہ مصرعہ : "خطائے بزرگاں گرفتن خطا است۔" اور کچھ اس وجہ سے کہ اگر ایک لطیف اور شفاف سطح پر کوئی داغ ہو اور وہ ایک عمدہ نظر گاہ میں جلوہ گر ہو تو وہاں وہ دھبہ بدنما نہیں بلکہ گلکاری معلوم ہوتا ہے، اور جسے بُرا معلوم ہو وہ خوش عقیدہ نہیں، میں روسیاہ بزرگوں کی ہر بات کو چشمِ عقیدت کا سُرمہ سمجھتا ہوں، مگر مقتضائے زمانہ پر نظر کر کے نمونہ پر اکتفا کرنا چاہیے۔

وہ خود بیان کرتے تھے کہ حسنِ صورت اور لطف معنی کا عشق ابتداء سے میرے دل میں تھا، چھوٹے سن میں بھی مصرعے موزوں زبان سے نکلتے تھے۔ شیر خوارگی کے عالم میں حُسن کی طرف اس قدر میلان تھا کہ بدصورت کو گود میں نہ جاتا تھا، کوئی خوب صورت لیتا تھا تو ہمک کر جاتا تھا، اس پھر اس سے لیتے تھے تو بمشکل آتا تھا۔