آب حیات/محمد شاکر ناجی
ناجی تخلص، سید محمد شاکر نام، شرافت اور سعادت کے ساتھ کمالِ شاعری سے اپنے زمانہ میں نامور تھے، اہلِ سخن نے انھیں طبقہ اول کے ارکان میں تسلیم کیا ہے۔ عمدۃ الملک امیر خاں جو محمد شاہی دربار کے رکنِ اعظم تھے، یہ اُن کے نعمت خانہ کے داروغہ تھے، شاہ مبارک آبرو نے جہاں اُن کے کمال کی تعریف کی ہے، وہاں اس امر کا بھی اشارہ کیا ہے :
سخن سنجاں میں ہے گا آبرو آج
نہیں شیریں زباں شاکر سریکا
مگر تیز مزاج اور شوخ طبع بہت تھے، راہ چلتے سے اُلجھتے تھے اور جس کے گرد ہوتے تھے اُسے پیچھا چھڑانا مشکل ہو جاتا تھا۔
زلف کے حلقہ میں دیکھا جب سے دانہ خال کا
مرغ دل عاشق کا تب سے صید ہے اس جال کا
گندمی چہرہ کو اپنے زلف میں پنہاں نہ کر
ہندواں سن کر مبادا شور ڈالیں کال کا
بینواؤں سے نہ مل اے مو کمر مت پیچ کھا
مونڈ سر لڑکوں کو کرتے ہیں وہ اپنا بال کا
مہر کی بیجا ہے چرخ بے مروت سے اُمید
پیر زالوں سے نہیں احسان کر اک بال کا
ایک دم ناجی کے تئیں آ کر جلا لے پیار سے
جاں بلب ہوں اے سجن یہ وقت نئیں اہمال کا
- -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
نہ تھا آزردہ دل کنعاں سے یوسف
ڈرا تھا خواب میں اخواں سے یوسف
نہ ہوتا راہ میں گلبانگ شہرت
جو روتا راہ میں خاراں سے یوسف
کوئیں میں جا پڑا یعقوب کا دِل
چلا جب نالہ و افغاں سے یوسف
زلیخا نے بہائے شیر کے نیل
جو رویا درد کے انجھواں سے یوسف
جو ناجی ڈر نہ ہوتا معصیت کا
نہ گردن پھیرتا فرماں سے یوسف
- -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
دیکھ موہن تری کمر کی طرف
پھر گیا مانی اپنے گھر کی طرف
جن نے دیکھے ترے لبِ شیریں
نظر اُن کی نہیں شکر کی طرف
ہے محال ان کا دام میں آنا
دل ہے ان سب بتاں کا زر کی طرف
تیرے رخسار کی صفائی دیکھ
چشمِ دانا نہیں ہُنر کی طرف
حشر میں پاک باز ہے ناجی
بد عمل جائیں گے سفر کی طرف
- -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
اے صبا کہہ بہار کی باتیں
اُس بتِ گلعذار کی باتیں
کس پہ چھوڑے نگاہ کا شہباز
کیا کرے ہے شکار کی باتیں
چھوڑتے کب ہیں نقد دل کو صنم
جب یہ کرتے ہیں پیار کی باتیں
- -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
معشوق مل کر آپ سے گر دلبری کرے
گر دیو ہو تو چاہیے آدم گری کرے
شیشہ اسی کے آگے بجا ہے کہ رُخ ستی
پیالے کو جب لے ہاتھ میں رشکِ پری کرے
اِس قد سے جب چمن میں خراماں ہو تو اے جاں
شمشاد و سرو آگے تری چاکری کرے
دشمن ہے دیں کا خالِ سیہ مُکھ اوپر ترے
ہندو سے کیا عجب ہے اگر کافری کرے
ناجی جو کوئی صاف کرے دل کا آئینہ
وہ عاشقی کے ملک میں اسکندری کرے
- -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
کفن ہے سبز ترے گیسوؤں کے ماروں کا
مکانِ غم ہے ترے در کے بے قراروں کا
- -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
رکھے اس لالچی لڑکے کو کب تنک بہلا
چلی جاتی ہے فرمائش کبھی یہ لا، کبھی وہ لا
- -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
موزوں قد اس کا چشم کی میزاں میں جب تُلا
طوبیٰ تب اُس سے ایک قدم اد کسا ہوا
- -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
اگر ہو وہ بُت ہندو کبھی اشنان کو ننگا
بھنور میں دیکھ کر جمنا اُسے غوطہ میں جا گنگا
- -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
دیکھ ہم صحبت کی دولت سے نہ رکھ چشمِ اُمید
لب صدف کے تر نہیں ہر چند گوہر میں ہے آب
- -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
بہا سستا ہو یا مہنگا نہیں موقوف غلے پر
یہ سب خرمن اسی کے ہیں خدا ہے جس کے پلے پر
انگوٹھی لعل کی کرتی قیامت، آج گر ہوتی
جنھوں کی آن پہنچی، لڑ موئے وہ ایک چھلے پر
- -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
روئے روشن کی جو کوئی یاد میں مشغول ہے
مہر اس کے روبرو سورج مکھی کا پھول ہے
- -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
نہ ٹوکو یار کو کہ خط رکھاتا یا منڈاتا ہے
مرے نشہ کی خاطر لطف سے سبزی بناتا ہے
- -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
جہاں دل بند ہو ناصح وہاں آوے خلل کرنے
رقیب نا ولد ناجی گویا لڑکوں کا بابا ہے
- -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
نادری چڑھائی اور محمد شاہی لشکر کی تباہی میں خود شامل تھے۔ اس وقت دربار دہلی کا رنگ، شرفا کی خواری، پاجیوں کی گرم بازاری اور اس پر ہندوستانیوں کی آرام طلبی اور ناز پروری کو ایک طولانی مخمس میں دکھایا ہے۔ افسوس ہے کہ اس وقت دو ہند اس کے ہاتھ آئے۔
لڑے ہوئے تھے دس بیس اُن کو بیتے تھے
دُعا کے زور سے دائی دوا کے جیتے تھے
شرابیں گھر کی نکالیں مزے سے پیتے تھے
نگاہ و نقش میں ظاہر گویا کہ جیتے تھے
گلے میں،نسئیاں بازو اوپر طلا – کرنال
قضا سے بچ گیا مرنا نہیں تو ٹھانا تھا
کہ میں نشان کے ہاتھی اوپر نشانہ تھا
نہ پانی پینے کو پایا وہاں نہ کھانا تھا
مل تھے دھان جو لشکر تمام چھانا تھا
نہ ظرف و مطبخ و دکاں نہ غلہ نہ بقال