آب حیات/شیخ شرف الدین مضمون

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

مضمون تخلص، شیخ شرف الدین نام، شیخ فرید الدین شکر گنج کی اولاد میں تھے۔ جاجمئو علاقہ اکبر آباد وطن اصلی تھا۔ دلی میں آ رہے تھے۔ اصل پیشہ سپاہ گری تھا۔ تباہی سلطنت سے ہتھیار کھول کر مضمون باندھنے پر قناعت کی اور زینت المساجد میں ایسے بیٹھے کہ مر کر اُٹھے، اس عالم میں بھی ایک خوش مزاج، با اخلاق، یار باش آدمی تھے، دورِ اول کے استادوں میں شمار ہوتے تھے اور انہی کا انداز تھا کیونکہ رواج یہی تھا اور خاص و عام اسی کو پسند کرتے تھے۔

اس زمانہ کے لوگ کسی قدر منصف اور بے تکلف تھے، باوجودیکہ مضمون سن رسیدہ تھے، اور خان آرزو سے عمر میں بڑے تھے، مگر انھیں غزل دکھاتے اور اصلاح لیتے تھے، نزلہ سے دانت ٹوٹ گئے تھے، اس لئے خان موصوف اُنھیں شاعرِ بیدانہ کہتے تھے۔

مرزا رفیع نے بھی اِن کا عہد پایا تھا، چنانچہ جب انتقال ہوا تو مرزا نے غزل کہی جس کا مطلع و مقطع بھی لکھتا ہوں۔

لئے مے اُٹھ گیا ساقی، مرا بھی پر ہو پیمانہ

الہٰی کس طرح دیکھوں میں اِن آنکھوں سے میخانہ

بنائیں اُٹھ گئیں یارو غزل کے خوب کہنے کی

گیا مضمون دنیا سے رہا سودا سو مستانہ

اور اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اس صاحبِ کمال نے زمانہ کے دل میں کیا اثر پیدا کیا تھا۔

ہائے ولی خدا تجھے بہشت نصیب کرے، کیسے کیسے لوگ تیری خاک سے اُٹھے اور خاک میں مل گئے، استاد مرحوم نے ایک دن فرمایا کہ شیخ مضمون کے زمانہ میں کوئی امیر باہر سے محل میں آئے اور پلنگ پر لیٹ گئے، ایک بڑھیا ماما نئی نوکر ہوئی تھی وہ حقہ بھر کر لائی اور سامنے رکھا، نواب صاحب کی زبان پر اُس وقت مضمون کا یہ شعر تھا :

ہم نے کیا کیا نہ ترے عشق میں محبوب کیا

صبر ایوب کیا، گریہ یعقوب کیا

ماما سُن کر بولی، الٰہی تیری امان، اس گھر میں تو آپ ہی پیغمبری وقت پڑ رہا ہے، بیچارے نوکروں پر کیا گزرے گی۔ چلو بابا یہاں سے۔ (دلی میں غریب مفلس فقیر کسی سے سوال کیا کرتے تھے تو کہا کرتے تھے عیالدار ہیں مفلس ہیں، ہم پہ پیغمبری وقت پڑا ہے۔ لللہ کچھ دو اور اصل اس کی یہ تھی کہ جس پر سخت مصیبت پڑتی ہے وہ زیادہ خدا کا پیارا ہوتا ہے اور چونکہ پیغمبر سب سے زیادہ خدا کے پیارے ہیں اس لئے ان پر زیادہ مصیبتیں پڑتی ہیں۔ جو مصیبتیں پیغمبروں پر پڑی ہیں وہ دوسرے پر نہیں پڑیں۔ رفتہ رفتہ پیغمبری وقت اور پیغمبری مصیبت کے معنی سخت مصیبت کے ہو گئے۔ دیکھو ایسی ایسی باتیں اس زمانہ میں کس قدر عام تھیں کہ بڑھیا اور مامائیں اُن سے نکتے اور لطیفے پیدا کرتی تھیں۔ اب اللہ اللہ ہے۔)

تعجب یہ ہے کہ اس مضمون کو مخلص کاشی نے بھی باندھا ہے :

در فراقِ توچہا اے بُتِ خبوب کنم

صبر ایوب کنم گریہ یعقوب کنم

کرے ہے دار کو کامل بھی سرتاج

ہوا منصور سے نکتہ یہ حل آج

(حل اور علاج میں صنعت تجنیس مرکب رکھی ہے۔)

خط آ گیا ہے اس کے، مری ہے سفید ریش

کرتا ہے اب تلک بھی وہ ملنے میں شام صبح

کریں کیوں نہ شکر لبوں کو مرید

کہ دادا ہمارا ہے بابا فرید

(شادی کی ریت رسموں میں بابا فرید کا پڑا، عورتوں کی شرع کا ایک واجب مسئلہ ہے، مزا یہ ہے کہ اس میں شکر ہی ہو اور مٹھائی جائز نہیں۔)

ہنسی تیری پیارے پھلجڑی ہے

یہی غنچہ کے دل میں گلجھڑی ہے

میکدہ میں گر سراپا فعلِ نامعقول ہے

مدرسہ دیکھا تو واں بھی فاعل و مفعول ہے

تیرِ مژگاں برستے ہیں مجھ پر

آبِ پیکاں کا اس طرف ہے نڈھال