آب حیات/شاہ مبارک آبرو
آبرو تخلص، مشہور شاہِ مبارک اصلی نام نجم الدین تھا، شاہ محمد غوث گوالیاری کی اولاد میں تھے، باوجودیکہ بڈھے شاعر اور پُرانے مشاق تھے مگر خانِ آرزو کو اپنا کلام دکھا لیتے تھے، دیکھو اس زمانہ کے لوگ کیسے منصف اور طالبِ کمال تھے۔ یہ اپنے زمانہ میں مسلم الثبوت شاعر زبانِ ریختہ کے اور صاحبِ ایجاد نظم اُردو کے شمار ہوتے تھے، وہ ایسا زمانہ تھا کہ اخلاص کو وسواس، اور دھڑ کو سر کا، قافیہ باندھ دیتے تھے اور عیب نہ سمجھتے تھے، ردیف کی کچھ ضرورت نہ تھی، البتہ کلام کی بنیاد ایہام اور ذو معنین لفظوں پر ہوتی تھی، اور محاورہ کو ہرگز ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔ وہ ایک آنکھ سے معذور تھے، اِن کی اور مرزا جان جانان مظہر کی خوب خوب چشمکیں ہوتی تھیں، بلکہ ان میں آنکھ کا بھی اشارہ ہو جاتا تھا، چنانچہ مرزا صاحب نے کہا :
آبرو کی آنکھ میں اک گانٹھ ہے
آبرو سب شاعرو ں کی۔۔۔۔۔ ہے
شاہ آبرو نے کہا ہے :
کیا کروں حق کے کئے کو، کور میری چشم ہے
آبرو جگ میں رہے تو جانِ جاناں پشم ہے
شاہ کمال بخاری اس زمانہ میں ایک بزرگ شخص تھے۔ اُن کے بیٹے پیر مکھن تھے۔ اور پاکباز تخلص کرتے تھے، شاہ مبارک کو اُن سے محبت تھی، چنانچہ اکثر شعروں میں اِن کا نام یا کچھ اشارہ ضرور کرتے تھے، دیکھا کیا مزے کا سجع کہا ہے :
عالم ہمہ دوغ است و محمد مکھن
اِن کی علمی استعداد کا حال معلوم نہیں، کلام سے ایسا تراوش ہوتا ہے کہ صرف و نحو عربی کی جانتے تھے اور مسائل علمی سے بے خبر نہ تھے۔
اِن کے شعر جب تک پیر مکھن پاکباز کے کلام سے چپڑے نہ جائیں تب تک مزہ نہ دیں گے، اس لئے پہلے ایک شعر اِن کا ہی لکھتا ہوں، اس زمانہ کے خیالات پر خیال کرو :
مجھے رنج و الم گھیرے ہے نت میرے میاں صاحب
خبر لیتے نہیں کیسے ہو تم؟ میرے میاں صاحب
آیا ہے صبح نیند سے اُٹھ رسمسا ہوا
جامہ گلے میں رات کا پھولوں میں بسا ہوا
کم مت گنو یہ بخت سیاہوں کا رنگ زرد
سونا وہ ہے کہ ہووے کسوٹی کسا ہوا
انداز سیں زیادہ نپٹ ناز خوش نہیں
جو خال اپنے حد سے بڑھا سو مسا ہوا
قامت کا سبھ جگت منیں بالا ہوا ہے نام
قد اس قدر بلند تمھارا رسا ہوا
دل یوں ڈرے ہے زلف کا مارا بہونک سیں
رسّی سیں اژدہا کا ڈرے جوں ڈسا ہوا
اے آبرو اول تو سمجھ پیچ عشق کا
پھر زلف سے نِکل نہ سکے دل پھنسا ہوا
- -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
پلنگ کوں چھوڑ خالی گروسیں اٹھ گئے سجن میتا
چتر کاری لگے کھانے ہمن کو گھر ہوا چیتا
لگائی بینوا کی طرح سیں جب وہ چھڑی تم نے
تج اوروں کو لیا ہے ہاتھ اپنے ایک تو میتا
جُدائی کے زمانہ کی سجن کیا زیادتی کہیے
کہ اس ظالم کی جو ہم پر گھڑی گزری سو جگ بیتا
لگا دل یار سیں تب اس کو کیا کام آبرو ہم سیں
کہ زخمی عشق کا پھر مانگ کر پانی نہیں پیتا
- -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
نین سیں نین جب ملائے گیا
دل کے اندر مرے سمائے گیا
نگہِ گرم سیں مرے دل میں
خوش نین آگ سی لگائے گیا
تیرے چلنے کی سن خبر عاشق
یہی کہتا ہوا کہ ہائے گیا
سہو کر بولتا تھا مجھ سیتی
بوجھ کر بات کو چھپائے گیا
آبرو ہجر نہ بیچ مرتا تھا
مُکھ دکھا کر اُسے جلائے گیا
- -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
یہ رسم ظالمی کی، دستور ہے کہاں کا
دل چھین کر ہمارا دشمن ہوا ہے جاں کا
ہر یک نگہ میں ہم سے کرنے لگے ہو نوکیں
کچھ یوں تری آنکھوں نے پکڑا ہے طور بانکا
تجھ راہ میں ہوا ہے اب تو رقیب کتا
بُو پائے کر ہمارے آ باندھتا ہے ناں کا
خندوں کے طور گویا دیوارِ قہقہا ہے
پھر کر پھرے نہ لڑکا جو اس طرف کو جھانکا
رستم دَہَل کے دل میں ڈالے انجھو سو پانی
دیکھے اگر بھواں کی تلوار کا جھماکا
فاسق کے دل پہ ڈالی جب نفسِ بد نے بَرکی
رجواڑے کی گلی کا تب جا غبار پھانکا
سب عاشقوں میں ہم کوں مژدہ ہے آبرو کا
ہے قصد گر تمہارے دل بیچ امتحاں کا
- -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
مت قہر سینی ہاتھ میں لے دل ہمارے کوں
جلتا ہے کیوں پکڑتا ہے ظالم انگارے کوں
ٹک باغ میں شتاب چلو اے بہارِ حُسن
گل چشم ہو رہا ہے تمہارے نظارے کوں
مرتا ہوں ٹک رہی ہے رمق آدرس دکھا
جا کر کہو ہمارے طرف سے پیارے کوں
میں آ پڑا ہوں عشق کے ظالم بھنور کے بیچ
تختہ اوپر چلا دتے ہیں جی کے آئے کوں
اپنا جمال آبرو کوں ٹک دکھاؤ آج
مدت سے آرزو ہے درس کی بچائے کوں
- -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
رستم اس مرد کی کھاتا ہے قسم زوروں کی
تاب لاوے جو عشق کے جھک جھوروں کی
قدردان حُسن کے کہتے ہیں اُسے دل مُردہ
سانورے چھوڑ کے جو چاہ کرے گوروں کی
گانٹھ کاٹی ہے مرے دل کی تری انکھیاں نے
دو پلک نئیں یہ کترنی ہے مگر چوروں کی
لبِ شیریں پہ سریجن کے نہیں خطِ سیاہ
ڈار چھوٹی ہے مٹھائی پہ شکر خوروں کی
چَلکیں سورج منیں جو خط شعاع کے شعلے
دیکھ آنکھوں منیں یہ لال جھک ڈوروں کی
قادری جبکہ سجی برمیں سجن بونٹہ وار
عقل چکر میں گئی دیکھ کے چھب موروں کی
آبرو کوں نہیں کم ظرف کی صحبت کا داغ
کس کو برداشت ہے ہر وقت کے نکتوروں کی
- -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
افسوس ہے کہ مجکوں وہ یار بھول جاوے
وہ شوق، وہ محبت، وہ پیار بھول جاوے
رستم تیرے آنکھوں کے ہوئے اگر مقابل
انکھیوں کو دیکھ تیری تلوار بھول جاوے
عارض کے آئینہ پر تمنا کے سبز خط ہے
طوطی اگر جو دیکھے گلزار بھول جاوے
کیا شیخ و کیا برہمن جب عاشقی میں آویں
تسبی کرے فراموش نہ نار بھول جاوے
یوں آبرو بنا دے دل میں ہزار باتاں
جب تیرے آگے آوے گفتار بھول جاوے
- -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
پانی پت (۱) آج چھوڑ جو گنور تم چلے
تو راہ بیچ جائیو جاناں سنبھال کے
کنجی اُس کی زبانِ شیریں ہے
دل مرا قفل ہے بتاشے (۲) کا
(۱) پانی پت، گنور سنبھالکہ قصبوں کے نام ہیں۔ سنبھالکے کی پُرانی سرائے اب بھی قائم ہے۔ اگلے وقتوں میں یہاں قافلہ لٹتا تھا اور رہزنی اس کی مشہور تھی اور اب بھی استحکام اور وسعت میں ہمیشہ سے ضرب المثل ہے۔
(۲) چھوٹا سا قفل، مقدار میں بتاشے کے برابر اس سے کچھ بڑا ہوتا ہے۔ بتاشے کا قفل کہلاتا تھا۔
تم نے بجاؤ نے کو جب ہاتھ بیچ نَے لی
مجنوں ہو گئے سب یہ اس طرح کے نَے لی
سجا ہے نرگسی بوٹے کا جامہ
کرے کیونکر نہ مجھ سے چشم پوشی
آبرو کے قتل کو حاضر ہوئے کس کر کمر
خون کرنے کو چلے عاشق کو تہمت باندھ کر
وہ بھواں سے لگے ہیں جس کے نین
وہ کہاتا ہے حاجی الحرمین
عزت ہے جوہری کی، جو قیمتی ہو جوہر
ہے آبرو ہمن کو، جگ میں سخن ہمارا
جہاں اس خو کی گرمی تھی نہ تھی واں آگ کو عزت
مقابل اس کے ہو جاتی تو آتش لکڑیاں کھاتی
اسی انداز میں حافظ عبد الرحمن خاں احسان نے ایک شعر کہا ہے، اور کیا خوب کہا ہے :
دختِ رز سے کہا میخانے میں شب رندوں نے
آج تو خوب ہی ختکے تری سوکن کو لگے
یعنی بھنگڑ خانے میں بھنگڑوں نے خوب سبزیاں بھونٹیں اور طرے اُڑائے۔ تم بھی یاروں پر نظرِ عنایت کرو۔
مبارک نام تیرے آبرو کا کیوں نہ ہو جگ میں
اثر ہے یو ترے دیدار کی ٖفرخندہ حالی کا
نالہ ہمارے دل کا، غم کو گواہ بس ہے
اپنے تئیں شہادت انگشت آہ بس ہے
تمھارے لوگ کہتے ہیں کمر ہے
کہاں ہے، کسطرح کی ہے، کدھر ہے ؟
تخلص آبرو برجا ہے میرا
ہمیشہ اشکِ غم سے چشم تر ہے
اس ناتواں کی حالت واں جا کہے ہے اڑ کر
میرا یہ رنگِ رُو ہے گویا مکھی کبوتر
میاں خفا ہیں فقیروں کے حال پر
آتا ہے اُن کو جوش جمالی کمال (۱) پر
(۱) جلالی اور جمالی دو قسم کے اسمائے الٰہی ہیں اور شیخ کمال بخاری ان کے دادا کا نام ہے۔
پھرتے تھے دشت دشت دوانے کدھر گئے
وے عاشقی کے ہائے زمانے کدھر گئے
خدمتگار خاں بادشاہی خواجہ سرا تھا اور سرکار شاہی میں بڑا صاحبِ اختیار تھا۔ اکثر بادشاہی نوکر اس کی سخت گیری اور بد مزاجی سے دق رہتے تھے، اُنھیں بھی اس سے کام پڑتا تھا، کبھی آسانی سے مطلب نکل آتا تھا کبھی دشواری سے، چنانچہ ایک موقعہ پر یہ شعر کہا :
یاروں خدمتگار خاں خو جوں کے بیچ
ہے تو مستثنیٰ و لیکن منقطع
- -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*