Jump to content

آب حیات/سراج الدین علی خان آرزو

From Wikisource

خانِ آرزو کو زبانِ اُردو پر وہی دعویٰ پہنچتا ہے جو کہ ارسطو کو فلسفہ و منطق پر ہے۔ جب تک کہ کل منطقی ارسطو کے عیال کہلائیں گے تب تک اہلِ اُردو خانِ آرزو کے عیال کہلاتے رہیں گے، ان کا دلچسپ حال قابلِ تحریر تھا، لیکن چونکہ فارسی تصنیفات کی مہموں نے اُنھیں کوئی دیوان اُردو میں نہ لکھنے دیا، اس لئے یہاں اُن کے باب میں اس قدر لکھنا کافی ہے کہ خان آرزو وہی شخص ہیں جن کے دامنِ تربیت میں ایسے شائستہ فرزند تربیت پا کر اُٹھے جو زبانِ اُردو کے اصلاح دینے والے کہلائے۔ اور جس شاعری کی بنیاد جگت اور ذومعنی لفظوں پر تھی اسے کھینچ کر فارسی کی طرز اور ادائے مطالب پر لے آئے، یعنی مرزا جان جاناں مظہر، مرزا رفیع، میر تقی میر، خواجہ میر درد، وغیرہ۔

خان آرزو اُردو کے شاعر نہ تھے نہ اُس زمانہ میں اُسے کچھ کمال سمجھتے تھے، البتہ بعض متفرق اشعار کہے تھے، وہ زمانہ کی گردشوں سے اس طرح گھِس پس کر اُڑ گئے کہ آج کل کے لوگوں کو خبر بھی نہیں، میرے دیوانے دل نے جو اُستادوں کی زبان سے لے کر سینہ میں امانت رکھے وہ کاغذ سپرد کرتا ہوں۔ یقین ہے کہ یہ امانتدار ضائع نہ کرے گا۔ خان موصوف نے ۱۱۶۵ھ میں رحلت کی، اصل وطن اُن کے بزرگوں کا اکبر آباد ہے، مگر یہ دلی سے خاص دل لگی رہتے تھے، چنانچہ لکھنؤ میں انتقال کیا، ہڈیوں کی خاک دلی میں آ کر زمین کا پیوند ہوئی۔

آتا ہے ہر سحر اُٹھ تیری برابری کو

کیا دن لگے ہیں دیکھو خورشید خاوری کو

اِس تند خو صنم سے جب سے لگا ہوں سننے

ہر کوئی مانتا ہے میری دلاوری کو

تجھ زلف میں لٹک نہ رہے دل تو کیا کرے

بیکار ہے اٹک نہ رہے دل تو کیا کرے

رکھے سیپارہ دل کھول آگے عندلیبوں کے

چمن میں آج گویا پھول ہیں تیرے شہیدوں کے

کھول کر بندِ قبا کو ملکِ دل غارت کیا

کیا حصارِ قلب دلبر نے کھلے بندوں کیا

اس زلفِ (۱) سیاہ فام کی کیا دھوم پڑی ہے

آئینہ کے گلشن میں گتا جھوم پڑی ہے

(۱) سودا نے اپنے تذکرہ میں اس شعر کو خان آرزو کے نام سے اس طرح لکھا ہے اور میر انشاءاللہ خان نے اپنے دریائے لطافت میں قزلباش خاں امید کے نام پر اسی شعر کو اس طرح لکھا ہے :

از زلف سیاہ تو بدل دوم پری ہے

در خانہ آئینہ گتا جوم پڑی ہے

اور بعض تذکروں میں اسی شعر کو میر سوز فطرت کے نام سے لکھا ہے۔ واللہ اعلم۔

دریائے اشک اپنا جب سر بہ اوج مارے

طوفان نوح بیٹھا گوشہ میں موج مارے

مرے شوخِ خراباتی کی کیفیت نہ کچھ پوچھو

بہارِ حُسن کو دی آب اُس نے جب چرس کھینچا

مغاں مجھ مست بن پھر خندہ قلقل نہ ہووے گا

مئے گلگوں کا شیشہ ہچکیاں لے لے کے روئے گا

باوجودیکہ عزتِ خاندان اور نفسِ کمالات کی حیثیت سے خان موصوف کو امرا و غربا سب معزز و محترم سمجھتے اور علم و فضل کے اعتبار سے قاضی القضات کا عہدہ دربارِ شاہی سے حاصل کیا مگر مزاج کی شگفتگی اور طبیعت کی ظرافت نے دماغ میں خود پسندی اور تمکنت کی بو نہیں آنے دی تھی، چنانچہ لطیفہ شاگردوں میں ایک نوجوان بچپن سے حاضر رہتا تھا، حُسنِ اتفاق یہ کہ چہرہ اُس کا نمکِ حسن سے نمکین تھا، وہ کسی سبب سے چند روز نہ آیا، ایک دن یہ کہیں سرِ راہ بیٹھے تھے کہ وہ اِدھر سے گزرا۔ انھوں نے بلایا، شاید اسے ضروری کام تھا کہ وہ عذر کر کے چلا، انھوں نے پھر روکا اور بلا کر یہ شعر پڑھا کہ لطافتِ طبع سے اسی وقت شبنم کی طرح ٹپکا تھا :

یہ ناز یہ غرور لڑکپن میں تو نہ تھا

کیا تم جوان ہو کے بڑے آدمی ہوئے

ایک دن کہیں مشاعرہ تھا، ایک جانب چند فہمیدہ اور سخن شناس بیٹھے شعر و سخن سے دماغ تر و تازہ کر رہے تھے، ایک شخص نے خان موصوف کی تعریف کی اور اُس میں بہت مبالغہ کیا۔ حکیم اصلح الدین خاں صاحب مُسکرائے اور کہا کہ :

آرزو خوب است!

اینقدرہا خوب نیست

سب ہنسے اور خود خاں صاحب دیر تک اس مصرعہِ لطیف کی داد دیتے رہے :

پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ

افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*