آب حیات/دوسرا دور/خاتمہ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

دوسرے دَور کے شعراء رخصت ہوتے ہیں، سبحان اللہ اس بڑھاپے پر ایسے زندہ دل، اس کمال پر ایسے بے تکلف سادہ مزاج :

کیا خوب آدمی تھے خدا مغفرت کرے

نہ استعاروں کے پیچ، نہ تشبیہوں کی رنگا رنگی، اپنے خیالات کو کیسی صاف صاف زبان اور سیدھے سیدھے محاورہ میں کہہ گئے کہ آج تک جو سُنتا ہے سَر دھُنتا ہے۔ اُن کا کلام قال نہ تھا حال تھا۔ جو خیال شعر میں باندھتے تھے، اس کا عالم اُن کے دل و جان پر چھا جاتا تھا، یہی سبب ہے کہ جس شعر کو دیکھو تاثیر میں ڈوبا ہوا ہے۔ اسی کو آج اہلِ فرنگ ڈھونڈھتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ہر شے کی اصلی حالت دکھانی چاہیے۔ مگر حالت کون دکھائے، کہ اپنی حالت بگڑی ہوئی ہے :

صحبتِ گل ہے فقط بلبل سے کیا بگڑی ہوئی

آج کل سارے چمن کی ہے ہوا بگڑی ہوئی

آدمی کہتے ہیں جس کو ایک پُتلا کل کا ہے

پھر کہاں کل اس کو جب کل ہو ذرا بگڑی ہوئی

دل شکستوں کا سخن ہووے نہ کیونکر درست

ساز بگڑے ہے تو نکلے ہے صدا بگڑی ہوئی