آب حیات/دوسرا دور/تمہید
دوسرا دور شروع ہوتا ہے، اس فصل میں زبان کے حسن قدرتی کے لئے موسم بہار ہے، یہ وقت ہے کہ مضامین کے پھول گلشنِ فصاحت میں اپنے قدرتی جوبن دکھا رہے ہیں، حُسنِ قدرتی کی شے ہے ؟ ایک لطفِ خداداد ہے، جس میں بناؤ سنگار کا نام بھی آ جائے تو تکلف کا داغ سمجھ کر سات سات پانی سے دھوئیں، ان کا گلزار نیچر کی گلکاری ہے، صنعت کی دستکاری یہاں آ کر قلم لگائے تو ہاتھ کاٹے جائیں۔ اس میں تو کلام نہیں کہ یہ با کمال بھی ایک ہی شہد کی مکھی ہیں، اور معلوم ہوتا ہے کہ دریائے محبت میں ڈوبے ہوئے ہیں مگر اس خوبی کا وصف کسی زبان سے ادا نہیں ہوتا کہ جو کچھ دل میں ہوتا ہے جوں کا توں ادا کر دیتے ہیں۔ خیالی رنگوں کے طوطے مینا نہیں بناتے، ہاں طوطی و بلبل کی طرح صاف زبان اور قدرتی الحان لائے ہیں۔ انھوں نے اپنے نغموں میں گٹگری، اپچ، پلٹی، تان کسی گویے سے لے کر نہیں ڈالی، تم دیکھنا بے تکلف بولی اور سیدھی سادی باتوں سے جو کچھ دل میں آئے گا بے ساختہ کہہ دیں گے کہ سامنے تصویر کھڑی کر دیں گے اور جب تک سننے والے سنیں گے کلیجے پکڑ کر رہ جائیں گے، اس کا سبب کیا؟ وہی بے ساختہ پن جس کے سادہ پن پر ہزار بانکپن قربان ہوتے ہیں۔ مصرعہ :
"ہے حُسن وہی جس میں بے ساختہ پن نکلے "
ان کی اصلاح نے بہت سے لفظ ولی کے عہد کے نکال ڈالے مگر پھر بھی بھلہ رے اور گھیرے گھیرے اور مرے ہے بجائے مرتا ہے اور دوانہ بجائے دیوانہ اور میاں اور فقط جان کا لفظ بجائے معشوق موجود ہے، متاخرین اس کی جگہ جانِ جاں، یا جانا، یا یار، یا دوست، یا دلبر وغیرہ وغیرہ بولنے لگے، مگر موہن دورِ دوم میں نہ رہا۔ ہجن رہا اور بِل گیا، یعنی جل گیا، یعنی صدقہ گیا اور من بجائے دل بھی ہے۔
سید انشاء ایک جگہ بعض الفاظِ مذکورہ کا ذکر کر کے لکھتے ہیں، کہ اس عہد کی گفتگو میں اس قسم کے الفاظ شرفا بولتے تھے۔ پروٹھا بجائے پراٹھا، اور دھیرا بجائے آہستہ یا متوقف، اُور یعنی طرف، اور بھیچک بمعنی حیران (یہ دو لفظ سودا نے بھی باندھے ہیں ) اور تکوں بجائے کوں کویا اپنے تئیں کی اور جانے ہارا بجائے جانے والا، اور فرمائتا ہے بجائے فرماتا ہے اور جائتا ہے بجائے جاتا ہے۔