آب حیات/خواجہ حیدر علی آتش

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

آتشؔ تخلص، خواجہ حیدر علی نام، باپ دلّی کے رہنے والے تھے۔ لکھنؤ میں جا کر سکونت اختیار کی، خواجہ زادوں کا خاندان تھا، جس میں مسند فقیری بھی قائم تھی اور سلسلہ پیری مریدی کا بھی تھا۔ مگر شاعری اختیار کی اور خاندانی طریقہ کو سلام کر کے اس میں فقط آزادی و بے پراوئی کو رفاقت میں لیا۔ مصحفیؔ کے شاگرد تھے اور حق یہ ہے کہ ان کی آتش بیانی نے استاد کے نام کو روشن کیا۔ بلکہ کلام کی گرمی اور چمک کی دمک نے اُستاد شاگرد کے کلام میں اندھیرے اُجالے کا امتیاز دکھایا۔

خواجہ صاحب کی ا بتدائی عمر تھی اور استعداد علمی تکمیل کو نہ پہونچی تھی کہ طبیعت مشاعروں میں کمال دکھانے لگی۔ اس وقت دوستوں کی تاکید سےدرسی کتابیں دیکھیں، باوجود اس کے عربی میں کافیہ کو کافی سمجھ کر آگے پڑھنا فضول سمجھا، مشق سے کلام کو قوت دیتے رہے یہاں تک کہ اپنے زمانہ میں مسلم الثبوت استاد ہو گئے اور سینکڑوں شاگرد دامنِ تربیت میں پرورش پا کر استاد کہلائے۔

چھریرہ بدن، کشیدہ قامت، سیدھے سادے بھولے بھالے آدمی تھے۔ سپاہیانہ رندانہ اور آزادانہ وضع رکھتے تھے اور اس لئے کہ خاندان کا تمغہ بھی قائم رہے، کچھ رنگ فقیری کا بھی تھا، ساتھ اس کے بڑھاپے تک تلوار باندھ کر سپاہیانہ بانکپن بناہے جاتے تھے۔ سر پر ایک زلف اور کبھی حیدری چٹیا کہ یہ بھی محمد شاہی بانکوں کا سکّہ ہے، اسی میں ایک طرّہ سبزی کا بھی لگائے رہتے تھے اور بے تکلفانہ رہتے تے اور ایک بانکی ٹوپی بھوں پر دھرے جدہر چاہتے تھے، چلے جاتے تھے۔ معالی خاں کی سرا میں ایک پُرانا سا مکان تھا، وہاں سکونت تھی۔ اس محّلے کے ایک طرف ان کے دل بہلانے کا جنگل تھا، بلکہ ویرانوں اور شہر کے باہر جنگلوں میں اکثر پھرتے رہتے تھے۔ اسی (80) روپیہ مہینہ بادشاہ لکھنؤ کے ہاں سے ملتا تھا، پندرہ روپے گھر میں دیتے تھے، باقی غربا اور اہل ضرورت کو کھلا پلا کر مہینے سے پہلے ہی فیصلہ کر دیتے تھے۔ پھر توکل پر گزارہ تھا۔ مگر شاگردوں یا مرائے شہر میں سے کوئی سلوک کرتا تھا تو اس سے انکار نہ تھا۔ باوجود اس کے ایک گھوڑا بھی ضرور بندھا رہتا تھا، اسی عالم میں کبھی آسودہ حال رہتے تھے، کبھی ایک آدھ فاقہ بھی گزر جاتا تھا، جب شاگردوں کو خبر ہوتی ہر ایک کچھ نہ کچھ لے کر حاضر ہوتا اور کہتا کہ آپ ہم کو اپنا نہیں سمجھتے کہ کبھی اظہار حال نہیں فرماتے۔ جواب میں کہتے کہ تم لوگوں نے کِھلا کِھلا کر ہمارے نفسِ حریص کو فربہ کر دیا ہے، میر دوست علی خلیلؔ کو یہ سعادت اکثر نصیب ہوتی تھی، فقیر محمد خاں گویا خواجہ وزیر یعنی شیخ صاحب کے شاگرد کے شاگرد تھے مگر پچیس روپیہ مہینہ دیتے تھے، سید محمد خاں رندؔ کی طرف سے بھی معمولی نذرانہ پہنچتا تھا۔

زمانہ نے ان کی تصاویر مضمون کی قدر ہی نہیں بلکہ پرستش کی، مگر انھوں نے اس کی جاہ و حشمت سے ظاہر آرائی نہ چاہی۔ نہ امیروں کے درباروں میں جا کر غزلیں سنائیں نہ ان کی تعریفوں میں قصیدے کہے۔ ایک ٹوٹے پھوٹے مکان میں جس پر کچھ چھت کچھ چھپّر سایہ کئے تھے۔ بوریا بچھا رہتا تھا اسی پر ایک لنگ باندھے صبر و قناعت کے ساتھ بیٹھے رہے اور عمر چند روزہ کو اس طرح گزرا دیا جیسے کوئی بے نمازی و بے پروا فقیر تکیہ میں بیٹھا ہوتا ہے، کوئی متوسط الحال اشراف یا کوئی غریب آتا تو متوجہ ہو کر باتیں بھی کرتے تھے۔ امیر آتا تو دھتکار دیتے تھے۔ وہ سلام کر کے کھڑا رہتا کہ آپ فرمائیں تو بیٹھے۔ یہ کہتے ہوں، کیوں صاحب! بوریے کو دیکھتے ہو کپڑے خراب ہو جائیں گے۔ یہ فقیر کا تکیہ ہے، یہاں مسند تکیہ کہاں اور یہ حالت شیخ صاحب کی شان و شکوہ کے بالکل برخلاف ہے۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ عالم میں مقبول خلائق ہوئے۔ علم والے شاعروں سے پہلو بہ پہلو رہے امیر سے غریب تک اسی فقیرانہ تکیہ میں آ کر سلام کر گئے۔

اے ہما پیش فقیری سلطنت کیا مال ہے

بادشاہ آتے ہیں پابوس گدا کے واسطے​

1263ھ میں ایک دن بھلے چنگے بیٹھے تھے۔ یکایک ایسا موت کا جھونکا آیا کہ شعلہ کی طرح بُجھ کر رہ گئے، آتشؔ کے گھر میں راکھ کے ڈھیر کے سوا اور کیا ہونا تھا، میر دوست علی خلیلؔ نے تجہیز و تکفین کی اور رسوم ماتم بھی بہت اچھی طرح ادا کیں، بی بی اور ایک لڑکا لڑکی خورد سال تھے۔ ان کی بھی سرپرستی وہی کرتے رہے۔ میر اوسط علی رشکؔ نے تاریخ کہی۔

مصرعہ : "خواجہ حیدر علی اے وائے مُردند"​

تمام عمر کی کمائی جسے حیات جاودانی کا مول کہنا چاہیے۔ ایک دیوان غزلوں کا ہے جو ان کے سامنے رائج ہو گیا تھا، دوسرا تتمہ ہے کہ پیچھے مرتب ہوا جو کلام ان کا ہے حقیقت میں محاورہ اردو کا دستور العمل ہے اور انشاء پردازی ہند کا اعلٰی نمونہ، شرفائے لکھنؤ کی بول چال کا انداز اس سے معلوم ہوتا ہے جس طرح لوگ باتیں کرتے ہیں، اِسی طرح انھوں نے شعر کہہ دیئے ہیں، اُن کے کلام نے پسند خاص اور قبول عام کی سند حاصل کی اور نہ فقط اپنے شاگردوں میں بلکہ بے غرض اہل انصاف کے نزدیک بھی مقبول اور قابل تعریف ہوئے۔ دلیل اس کی اس سے زیادہ نہیں ہو سکتی کہ بار بار چھپ جاتا ہے اور بِک جاتا ہے۔ اہل سخن کے جلسوں میں پڑھا جاتا ہے اور عاشقانہ غزلیں موسیقی کی تاثیر کو چمکا کر محفلوں کو گرماتی ہیں۔

وہ شیخ امام بخش ناسخؔ کےہمعصر تھے۔ مشاعروں میں اور گھر بیٹھے روز مقابلے رہتے تھے۔ دونوں کے معتقد انبوہ در انبوہ تھے۔ جلسوں کے معرکے اور معرکوں کو ہنگامے بنانے تھے۔ مگر دونوں بزرگوں پر صد رحم ہے کہ مرزا رفیعؔ اور سید انشاءؔ کی طرح دست و گریباں نہ ہوتے تھے کبھی کبھی نوکا نوکی ہو جاتی تھی کہ وہ قابل اعتنا نہیں، چنانچہ خواجہ صاحب نے جب شیخ صاحب کی غزلوں پر متواتر غزلیں لکھیں تو انھوں نے کہا ۔

ایک جاہل کہہ رہا تھا میرے دیواں کا جواب

بومسلیم نے لکھا تھا جیسے قرآں کا جواب


کیوں نہ دے ہر مومن اس ملحد کے دیواں کا جواب

جس نے دیواں اپنا ٹھہرایا ہے قرآں کا جواب​

خواجہ صاحب کے کلام میں بول چال اور محاورے اور روزمرّہ کا بہت لطف ہے جو کہ شیخ صاحب کے کلام میں اس درجہ پر نہیں۔ شیخ صاحب کے معتقد اس معاملے کو ایک اور قالب میں ڈھال کر کہتے ہیں کہ ان کے ہاں فقط باتیں ہی باتیں ہیں۔ کلام میں ریختہ کی پختگی، ترکیب میں متانت اور اشعار میں عالی مضامین نہیں اور اس سے نتیجہ ان کی بے استعدادی کا نکالتے ہیں، مگر یہ ویسا ہی ظلم ہے جیسا ان کے معتقدان پر کرتے ہیں کہ شیخ صاحب کے شعروں کو اکثر بے معنی اور مہمل سمجھتے ہیں۔ میں نے خو دیوان آتش کو دیکھا۔ کلام مضامین بلند سے خالی نہیں، ہاں طرز بیان صاف ہے، سیدھی سی بات کو پیچ نہیں دیتے۔ ترکیبوں میں استعارے اور تشبیہیں فارسیت کی بھی موجود ہیں مگر قریب الفہم اور ساتھ ہی اس کے اپنے محاورے کے زیادہ پابند ہیں۔ یہ درحقیقت ایک وصف خداداد ہے کہ رقابت اسے عیب کا لباس پہنا کر سامنے لاتی ہے۔ کلام کو رنگینی اور استعارہ و تشبیہ سے بلند کر دکھانا آسان ہے۔ مگر زبان اور روزمرہ کے محاورہ میں صاف صاف مطلب اس طرح ادا کرنا جس سے سننے والے کے دل پر اثر ہو یہ بات بہت مشکل ہے شیخ سعدی کی گلستاں کچھ چھپی ہوئی نہیں ہے۔ نہ اس میں نازک خیالات ہیں، نہ کچھ عالی مضامین ہیں نہ پیچیدہ تشبہیں ہیں، نہ استعارہ در استعارہ فقرے ہیں، چھوٹی چھوٹی کہانیاں ہیں صاف صاف باتیں ہیں اس پر آج تک اس کا جواب نہیں، مینا بازار اور پنج رقعہ کے انداز میں صدہا کتابیں موجود ہیں۔ اس معاملہ میں غور کے بعد یہ معلوم ہوا کہ جو بزرگ خیال بندی اور نازک خیالی کے چمن میں ہوا کھاتے ہیں اول ان کا مطلب ہوتا ہے کہ ایسے نئے مضمون نکالیں جو اب تک کسی نے نہ باندھے ہوں لیکن جب متقدمین کے اشعار سے کوئی بات بچی ہوئی نہیں دیکھتے تو ناچار انہی کے مضامین میں باریکیاں نکال کر موشگافیاں کرتے ہیں، اور ایسی ایسی لطافتیں اور نزاکتیں نکالتے ہیں کہ غور سے خیال کریں تو نہایت لطف حاصل ہوتا ہے۔ پھولوں کو پھینک کر فقط رنگِ بے گل سے کام لیتے ہیں۔ آئینہ سے صفائی اتار لیتے ہیں۔ تصویر آئینہ میں سے حیرت نکال لیتے ہیں اور آئینہ پھینک دیتے ہیں۔ نگاہ سرمگیں سے عرف بے آواز کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں۔ فی الحقیقت اِن مضامین سے کلاموں میں خیالی نزاکت اور لطافت سے تازگی پیدا ہو جاتی ہے اور لوگ بھی تحسین اور آفرین کے لئے مستعد ہو جاتے ہیں مگر مشکل یہ ہے کہ ان کے ادا کرنے کو الفاظ ایسے نہیں بہم پہنچتے کہ کہنے والا کہے اور سمجھنے والا صاف سمجھ جائے۔ اس لئے ایسے کلام پر اثر اور ناخن برجگہ نہیں ہوتے۔ بڑا افسوس یہ ہے کہ اس انداز میں عمومی مطالب ادا نہیں ہو سکتے۔ بے شک بہت مشکل کام ہے۔ مگر اس کی مثال ایسی ہے گویا چنے کی دال پر مصّور نے ایک شکار گاہ کی تصویر کھینچ دی یا چاول پر خوشنویس نے قل ھو اللہ لکھ دیا۔ فائدہ دیکھو تو کچھ بھی نہیں، اسی واسطے جو فہمیدہ لوگ ہیں وہ ادائے مطلب اور طرز کلام میں صفائی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس میں کوئی نئی بات نکل آئی تو ایسے اونچے نہ جائیں گے کہ بالکل غائب ہو جائیں اور سننے والے منھ دیکھتے رہ جائیں۔ البتہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان ترکیبوں کی پیچیدگی اور لفظوں کی باریکی و تاریکی میں جواہرات معنی کا بھرم ہوتا ہے اور اندر سے دیکھتے ہیں تو سیدھی سی بات ہوتی ہے جسے ان کے حریف کوہ کندن اور کاہ بر آوردن کہتے ہیں مگر انصاف یہ ہے کہ دونوں لطف سے خالی نہیں۔

گلہائے رنگ رنگ سے ہے زینت چمن

اے ذوقؔ اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے​

شیخ صاحب کے معتقد خواجہ صاحب کے بعض الفاظ پر بھی گفتگو کرتے ہیں، چنانچہ کہتے ہیں کہ جب انہوں نے یہ شعر پڑھا۔

دختر رز مری مونس ہے مری ہمدم ہے

میں جہانگیر ہوں وہ نور جہاں بیگم ہے​

لوگوں نے کہا، حضور! بیگم ترکی لفظ ہے، اہل زبان گاف پر پیش بولتے ہیں اور زبان فارسی کا قاعدہ بھی یہی چاہتا ہے۔ یہ اس وقت بھنگیائے ہوئے بیٹھے تھے کہا کہ ہونہہ ہم ترکی نہیں بولتے۔ ترکی بولیں گے تو بیگم کہیں گے۔ اسی طرح جب انہوں نے یہ مصرع کہا۔

مصرعہ : اس خوان کی نمش کفِ مار سیاہ ہے​

لوگوں نے کہا، قبلہ! یہ لفظ فارسی اور اصل میں نمشک ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب فارس جائیں گے تو ہم بھی نمشک کہیں گے، یہاں سب نمش کہتے ہیں تو نمش ہی شعر میں باندھنا چاہیے۔

پیشگی دل کو جو دے لے وہ اسے تحصیلے

ساری سرکاروں سے ہی عشق کی سرکار جدا​

حریفوں نے کہا کہ پیشگی ترکیب فارسی سے ہے۔ مگر فارسی والوں کے استعمال میں نہیں، انھوں نے کہا کہ یہ ہمارا محاورہ ہے۔

یہاں تک تو درست ہے مگر بعض مواقع پر جوان کے حریف کہتے ہیں تو ہمیں بھی لاجواب ہونا پڑتا ہے چنانچہ دیوان میں ایک غزل ہے، صاف ہوا۔ معاف ہوا، غلاف ہوا۔ اس میں فرماتے ہیں۔

زہر پرہیز ہو گیا مجھکو

درہ درماں سے المضاف ہوا​

اس ٹھوکر کھانے کا سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ عوام کے تلفظ میں المضاعف جو المضاف بولا جاتا ہے وہ اس کی اصلیت کے دھوکے ہیں رہی۔

خواجہ صاحب شاید حلوا کو حلوہ سمجھتے تھے جو فرماتے ہیں۔

لعلِ شکر بار کا بوسہ میں کیوں کر نہ لوں

کوئی نہیں چھوڑتا حلوہ بے دود کو​

کفار کو بھی عوام بےتشدید بولتے ہیں چنانچہ خواجہ صاحب نے بھی کہہ دیا۔

رنگ زرد و لب خشک و مثرہ خوں آلود

کشتہ عشق ہیں ہم، ہے یہ کفارہ اپنا


لکھے ہیں سرگذشتِ دل کے مضموں بکقلم اسمیں

تماشہ قتل گہ کا ہے مطالعہ میرے دیواں کا


کشاکس دم کی مارِ آستیں کا کام کرتی ہے

دل بیتاب کو پہلو میں اک گرگِ بغل پایا​

مخالف کہتے ہیں کہ بغلی گھونسہ اردو کا محاورہ ہے۔ مار آستیں فارسی کا محاورہ گرگ بغل کے لئے فارسی کی سند چاہیے۔ بے سند صحیح نہیں۔

چار ابرو میں تری حیراں ہیں سارے خوشنویس

کس قلم کا قطعہ ہے یہ کاتب تقدیر کا​

یہاں چار ابرو بمعنی چہرہ لیا ہے، محاورہ میں چار ابرو کا لفظ بغیر صفائی کے نہیں آتا جس سے مراد یہ ہے کہ ابرو اور ریش و بروت کو چٹ کر دیں۔ وہ بے نواؤں اور قلندروں کے لئے خاص ہے نہ کہ معشوق کے لئے۔ سید انشاء نے کیا خوب کہا ہے۔

اک نے نواکے لڑکے پہ مرتے ہیں شیخ جی
عاشق ہوئے ہیں واہ عجب لنڈمنڈ پر

بہار گلستاں کی ہے آمد آمد
خوشی پھرتے ہیں باغباں کیسے کیسے​

خوش پھرتے ہیں، چاہیے۔

لعب بازی کی حسرت نہ رہے اے آتش
میرے اللہ نے بازیچہ، تن مجھ کو دیا

بھلا دیکھیں تو گو بازی میں سبقت کون کرتا ہے
اِدھر ہم بھی ہیں تو سن پر اُدھر تم بھی ہو تو سن پر

ابروئے یار کا ہے سر میں جنھوں کے سودا
رقص وہ لوگ کیا کرتے ہیں تلواروں پر

نہیں غم تیغ ابروئے صنم سے قتل ہونے کا
شہادت بھی بمنزل فتح کے ہے مرد غازی کو

سودائی جان کر تری چشم سیاہ کا
ڈھیلے لگاتے ہیں مجھے دیدے غزال کے​

اس صنعت مراعات النظیر کو تکلیف زائد سمجھتے ہیں۔

حریف بعض اور قسم کے جزئیات پر بھی اعتراض کرتے ہیں۔ مثلاً خواجہ صاحب فرماتے ہیں۔

قدرت حق ہے صباحت سے تماشا ہے وہ رُخ
خالِ مشکیں دل فرعون یدبیضا ہے وہ رُخ​

کانپتا ہے آہ سے میری رقیت روسیاہ
اژدہا فرعون کو موسٰے کا عصا معلوم ہو

چکھ کے یاقوتی لب کو تری بیخود ہوئے ہم
نشہ معجوں میں مئے ہوش ربا کا نکا

حال مستقبل نجومی اس سے کرتے ہیں بیاں
زائچہ بھی نقل ہے پیشانی تحریر کا

جو کہ قسمت میں لکھا ہے جان ہوویگا وہی
پھر عبث کاہے کو طالع آزمائی کیجیے

رات بھر آنکھوں کو اس امید پر رکھتا ہوں بند
خواب میں شاید کہ دیکھوں طالع بیدار کو
(آتشؔ)

بند آنکھیں کئے رہتا ہوں پڑا
خواب میں آئےنظر تا کوئی
(جراتؔ)

دولت عشق کا گنجینہ وہی سینہ ہے
داغ دل زخم جگر مہر و نشاں ہے کہ جو تھا
(آتشؔ)

گوہر مخزن اسرار ہما نست کہ بود
حصہ مہربداں مہر و نشانست کہ بود
(خواجہ حافظؔ)

آنکھیں نہیں ہیں چہرہ پہ تیرے فقیر کے
دو ٹھیکرے ہیں بھیک کے دیدار کے لئے
(میرؔ صاحب)

کاسہ چشم لے کے جوں نرگس
ہم نے دیدار کی گدائی کی​

ان کے کلام میں بھی بعض الفاظ ایسے ہیں جو دلّی اور لکھنؤ کی زبان میں یورپ پچھم کا فرق دکھاتے ہیں۔ دلّی والے اندھیری کہتے ہیں اور انہوں نے اندھیاری باندھا ہے چنانچہ کئی شعر ناسخ کے حال میں لکھے گئے۔

خواجہ صاحب فرماتے ہیں۔

بلند و پست عالم کا بیاں تحریر کرتا ہے

قلم ہے شاعروں کا یا کوئی رہرو ہے بیہڑ کا​

بہیڑ کا لفظ دلی میں مستعمل نہیں۔ بل بے دلّی کے شعرا باندھتے تھے۔ آج کل کے لوگ اس کو بھی متروک سمجھتے ہیں، مگر خواجہ صاحب فرماتے ہیں۔

خانہ خراب نالوں کی بل بے شرارتیں

بہتی ہیں پانی ہو ہو کے سنگیں عمارتیں​

متاخرین لکھنؤ اور دہلی کے فارسی جمع کہ بے اضافت یا صفت کے نہیں لاتے۔ مگر یہ اکثر باندھتے ہیں۔ دیکھو اشعار مفصلہ ذیل :

رفتگاں کا بھی خیال اے اہل عالم چاہیے
عالم ارواح سے صحبت کوئی دم چاہیے

رہگذر میں دفن کرنا اے عزیزاں تم مجھے
شاید آ جائے کسی کے مرا مدفن زیر پا

بھاگو نہ مجھ کو دیکھ کے بے اختیار دور
اے کو دکاں ابھی تو ہے فصل بہار دور

کیا نفاق انگیز ہمہنباں ہوائے دہر ہے
نیند اڑ جاتی ہے سننے سے جو نفیر خواب کو

روز و شب رویا میں آتشؔ رفتگاں کی یاد میں
عمر بھر آنکھیں نہ بھولیں صورت احباب کو

عہد طفلی میں بھی تھا میں بسکہ سودائی مزاج
بیڑیاں منت کی بھی پہنیں تو میں نے بھاریاں

اے خط اس کے گورے گالوں پر یہ تو نے کیا کیا
چاندنی راتیں یکایک ہو گئیں اندھیاریاں​

صفت کو اس طرح موصوف کی مطابقت کے لئے جمع کرنا اب خلاف فصاحت سمجھتے ہیں۔ ایک دفعہ میر تقی کے ہاں مشاعرہ میں خواجہ صاحب نے غزل پڑھی کہ شکم کے مضمون میں موج بحر کافور، باندھا تھا طالب علی خاں عیشیؔ نے وہیں ٹوکا، انہوں نے جواب دیا کہ میاں ابھی مدت چاہیے۔ دیکھو تو سہی جامیؔ کیا کہتا ہے۔

ووپتانش بہم چوں قبر نور

حبابے خواستہ از بحر کافور​

ساتھ ہی میر مشاعرہ سے کہا کہ اب کی دفعہ یہی طرح ہو

یہ بزم وہ ہے کہ لا خیر کا مقام نہیں

ہمارے گنجفہ میں بازی غلام نہیں​

وہ بچارے بھی کسی کے متنبےٰ تھے۔ اسی مطلع کو یار لوگوں نے شیخ ناسخ کے گلے باندھا۔ کتب تواریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ شعرا جو شاگردان الہٰی ہیں، مجازی استادوں کے ساتھ ان کی بگڑتی چلی آئی ہے۔ چنانچہ بھی سنے گئے جو کلیات مروجہ میں نہیں ہیں۔ سبب یہ معلوم ہوا کہ ایک صاحب اس زمانہ میں نہایت خوش مذاق اور صاحب فہم تھے، جو خود شاعر تھے اور ان کے ہاں بڑی دھوم دھام سے مشاعرہ ہوتا تھا۔ خواجہ صاحب بھی جاتے تھے اور مشاعرہ میں غزل پڑھ کر وہیں دے آتے تھے۔ بعد انتقال کے جب شاگرد دیوان مرتب کرنے لگے تو بہت سی غزلیں انھیں میر مشاعرہ سے حاصل ہوئیں۔ خدا جانے عمداً یا ان کی بے اعتنائی سے بعض اشعار دیوان میں نہ آئے۔ لیکن چونکہ وہ شاگرد شیخ ناسخؔ کے تھے اس لیئے بدگمانی لوگوں کو گنہگار کرتی ہے۔

جب شیخ ناسخؔ کا انتقال ہوا تو خواجہ صاحب نے ان کی تاریخ کہی اور اس دن سے شعر کہنا چھوڑ دیا کہ کہنے کا لطف سننے اور سنانے کے ساتھ ہے۔ جس شخص سے سنانے کا لطف تھا جب وہ نہ رہا تو اب شعر کہنا نہیں بکواس ہے۔

حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ طبیعت کی آزادی اور کلام کے کمال نے ظاہر آرائی کے ذوق و شوق سے بے پرواہ کر دیا تھا مگر مزاج میں ظرافت ایسی تھی کہ ہر قسم کا خیال لطائف و ظرائف ہی میں ادا ہوتا تھا۔

لطیفہ : ایک شاگرد اکثر بے روزگاری کی شکایت سے سفر کا ارادہ ظاہر کیا کرتے تھے اور خواجہ صاحب اپنی آزاد مزاجی سے کہا کرتے تھے کہ میاں کہاں جاؤ گے؟ دو گھڑی مل بیٹھنے کو غنیمت سمجھو، اور جو خدا دیتا ہے اس پر صبر کرو، ایک دن وہ آئے اور کہا کہ حضرت! رخصت کو آیا ہوں۔

فرمایا خیر باشد کہاں؟ انھوں نے کہا کل بنارس کو روانہ ہوں گا۔ کچھ فرمائش ہو تو فرما دیجیے۔ آپ ہنس کر بولے اتنا کام کرنا کہ وہاں کے خدا کو ہمارا سلام کہدینا۔ وہ حیران ہو کر بولے کہ حضرت! یہاں اور وہاں کا خدا کوئی جدا ہے؟ فرمایا کہ شاید یہاں کا خدا بخیل ہے وہاں کا کچھ سخی ہو۔ انھوں نے کہا معاذ اللہ آپ کے فرمانے کی یہ بات ہے؛ خواجہ صاحب نے کہا بھلا سنو تو سہی، جب خدا وہاں یہاں ایک ہے تو پھر ہمیں کیوں چھوڑتے ہو۔ جس طرح اس سے وہاں جا کر مانگو گے اسی طرح یہاں مانگو۔ جو وہاں دے گا تو یہاں بھی دے گا۔ اس بات نے ان کے دل پر ایسا اثر کیا کہ سفر کا ارادہ موقوف کیا اور خاطر جمعی سے بیٹھ گئے۔

خواجہ صاحب کی سیدھی سادی طبیعت اور بھولی بھالی باتوں کے ذکر میں میر انیسؔ مرحوم نے فرمایا کہ ایک دن آپ کو نماز کا خیال آیا، کسی شاگرد سے کہا بھئی ہمیں نماز تو سکھاؤ، وہ اتفاقاً فرقہ سنت جماعت سے تھا۔ اس نے ویسی ہی نماز سکھا دی اور یہ کہہ دیا کہ استاد! عباد الہٰی جتنی پوشیدہ ہو اتنی ہی اچھی ہوتی ہے جب نماز کا وقت ہوتا تو حجرہ میں جاتے یا گھر کا دروازہ بند کر کے اسی طرح نماز پڑھا کرتے۔ میر دوست علی خلیل ان کے شاگرد خاص اور جلوت و خلوت کے حاضر باش تھے ایک دن انھوں نے بھی دیکھ لیا، بہت حیران ہوئے۔ یہ نماز پڑھ چکے تو انھوں نے کہا کہ استاد! آپ کا مذہب کیا ہے؟ فرمایا شیعہ ہیں! یہ کیا پوچھتے ہو، انھوں نے کہا کہ نماز سنیوں کی؟ فرمایا بھئی میں کیا جانوں، فلاں شخص سے میں نے کہا تھا، اس نے جو سکھا دی سو پڑھتا ہوں مجھے کیا خبر کہ ایک خدا کی دو دو نمازیں ہیں۔ اس دن سے شیعوں کی طرح نماز پڑھنے لگے۔ جتنے شاگرد، انھوںنے پائے کسی استاد کو نصیب نہیں ہوئے۔ ان میں سے سید محمد خاں زندؔ، میر وزیر علی صبا، میر دوست علی خلیلؔ، ہدایت علی جلیلؔ، صاحب مرزا ثناورؔ، مرزا عنایت علی بسملؔ، نادر مرزا فیض آبادی نامور شاگرد تھے کہ رتبہ استادی رکھتے تھے۔

غزل

سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا

کیا کیا الجھتا ہے تیری زلفوں کے تار سے
بخیہ طلب ہے سینہ صد چاک شانہ کیا

زیر زمیں سے آتا ہے جو گل سوز بکف
قاعدوں نے راستہ میں لٹایا خزانہ کیا

اڑتا ہے شوقِ راحت منزل سے اسپ عمر
مہمیز کس کو کہتے ہیں اور تازیانہ کیا

زینہ صبا کو ڈھونڈتی ہے اپنی مشت خاک
بام بلند یار کا ہے آستانہ کیا

چاروں طرف سے صورت جاناں ہو جلوہ گر
دل صاف ہو ترا تو ہے آئینہ خانہ کیا

صیاد اسیرِ دام رگ گل ہے عندلیب
دکھلا رہا ہے چھپ کے اسے آب و دانہ کیا

طبل و علم ہی پاس ہے اپنے نہ ملک و مال
ہم سے خلاف ہو کے کرے گا زمانہ کیا

آتی ہے کس طرح سے مری قبض روح کو
دیکھوں تو موت ڈھونڈ رہی ہے بہانہ کیا

ہوتا ہے زر و سن کے جو نا مرد مدعی
رستم کی داستاں ہے ہمارا فسانہ کیا

بے یار ساز گار نہ ہو گا وہ گوش کو
مطرب ہمیں سناتا ہے اپنا ترانہ کیا

صیاد گل غدار دکھاتا ہے سیرِ باغ
بلبل قفس میں یاد کرے آشیانہ کیا

ترچھی نظر سے طائرِ دل ہو چکا شکار
جب تیر کج پڑے گا اڑے گا نشانہ کیا

بیتاب ہے کمال ہمارا دل حزیں
مہماں، سرائے جسم کا ہو گا ردانہ کیا

یاں مدعی حسد سے نہ دے داد تو نہ نہ دے
آتشؔ غزل یہ تو نے کہی عاشقانہ کیا

(غزل لاجواب ہے مگر مقطع میں جو کیا کیا پہلو رکھا ہے اس کی جگہ یہ نہیں۔ انصاف اس کا میر انیسؔ مرحوم کے خاندان کی زبان پر ہے۔)

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


خانہ خراب نالوں کی بل بے شرارتیں
بہتی ہیں پانی ہو ہو کے سنگیں عمارتیں

سر کونسا ہے جس میں کہ سودا ترا نہیں
ہوتی ہیں تیرے نقش قدم کی زیارتیں

خانہ ہے گنجفہ کا ہر اک قصرِ شہر عشق
گھر گھر میں بادشاہیاں گھر گھر وزارتیں

دیدار یار برق تجّلیٰ سے کم نہیں
بند آنکھیں ہوں گی دینگی دعائیں بصارتیں

آنکھوں میں اپنی دولت بیدار ہیں وہ خواب
ہوتی ہیں تیرے وصل کی جن میں بشارتیں

کہتے ہیں مادر و پدر مہرباں کو بد
کرتے ہیں وہ جو ارض و سما کی حقارتیں

گویا زبان ہو تو کرے شکر آدمی
سمجھے جو تو، تو کرتے ہیں یہ گنگ اشارتیں

زیر زمیں بھی یاد ہیں ہفت آسماں کے ظلم
بھولا نہیں میں سنگ دلوں کی شرارتیں

خضر و مسیح کاٹتے ہیں رشک سے گلا
تو بھی تو کر شہیدوں کی اپنے زیارتیں

عالم کو لوٹ کھایا ہے اک پیٹ کے لئے
اس غار میں گئی ہیں ہزاروں ہی غارتیں

باقی رہے گا نام ہمارا نشاں کے ساتھ
اپنی بھی چند بیتیں ہیں اپنی عمارتیں

اہل جہاں کا حال ہے کیا ہم سے کیا کہیں
بدگوئیاں ہیں پیچھے تو منھ پر اشارتیں

نقش و نگار حسنِ بتاں کا نہ کھا فریب
مطلب سے خالی جان لے تو یہ عبارتیں

عاشق ہیں، ہم کو مدنطر کرئے یا رہے
کعبہ کے حاجیوں کو مبارک، زیارتیں

ایسی خلاف ہم سے ہوئی ہے ہوائے دہر
کافور کھائیے تو ہوں پیدا حرارتیں

آتش یہ شش جہت ہے مگر کوچہ یار کا
چاروں طرف سے ہوتی ہیں ہم پر اشارتیں

  • -*-*-*-*-*-*


باغباں انصاف پر بلبل سے آیا چاہیے
پنیحنی اس کو زر گل کی پنہایا چاہیے

پاں بھی کھاؤ جمائی ہے جو مسّی کی دھڑی
شام تو دیکھی شفق کو بھی دکھایا چاہیے

آئینے میں خطِ نورس کا نظارہ کیجیے
آہوانِ چشم کو ریحاں چرایا چاہیے

بوسہ اس لب کا ہے قوت بخش روحِ ناتواں
ایسی یاقوتی میسر ہو تو کھایا چاہیے

عشق میں حد ادب سے آگے رہتا ہے قدم
شاخ گلبن پر سے بلبل کو اڑایا چاہیے

دیکھئے کرتا ہے کیونکر یار سے گستاخیاں
شوق کے بھی حوصلے کو آزمایا چاہیے

ہو گیا ہے ایک مدت سے دِل نالاں خموش
باغ میں چل کر اسے بلبل سنایا چاہیے

فصل گل ہے چار دن ساقی تکلف ہے ضرور
پر جواہر کے بط مے کو لگایا چاہیے

فرش گل بلبل کی نیت سے بچھایا چاہیے
شمع پروانوں کی خاطر سے جلایا چاہیے

خم میں جوش مے سے مجھ کو یہ صدا ہے آ رہی
ظرفِ مستی ہو تو کیفیت اٹھایا چاہیے

حال دل کچھ کچھ کہا میں نے تو بولا سن کے یار
بس عبارت ہو چی مطلب پہ آیا چاہیے

شیر سے خالی نہیں رہتا نیستاں زنہیار
بوریائے فقر بچّھا چھوڑ جایا چاہیے

رنگ زرد و چشم تر سے کیجیے دعوائے عشق
دو گواہ حال اس قضیے کے لایا چاہیے

رام ہوتے ہی نہیں وحشی مزاجی ہے سو ہے
ان سیہ چشموں کو چوپہرہ جگایا چاہیے

دیکھ کر خلوت سرائے یار کہتے ہیں فقیر
عود کی مانند یاں دھونی رمانا چاہیے

خاطر آتشؔ سے کہیے چند جزو شعر اور بھی
بے نشاں کا نام باقی چھوڑ جایا چاہیے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

فریبِ حسن سے گبرو مسلماں کا چلن بگڑا
خدا کی یاد بھولا شیخ بت سے برہمن بگڑا

قائے گل کو پھاڑا جب مرا گل پیرہن بگڑا
بن آئی کچھ نہ غنچے سے جو وہ غنچہ دہن بگڑا

نہیں بے وجہ ہنسنا اس قدر زخم شہیداں کا
تری تلوار کا منھ کچھ نہ کچھ اے تیغزن بگڑا

تکلف کیا جو کھوئی جان شیریں پھوڑ کر سر کو
جو غیرت تھی تو پھر خسرو سے ہوتا کوہکن بگڑا

کسی چشم سیہ کا جب ہوا ثابت میں دیوانہ
تو مجھ سے مست ہاتھی کی طرح جنگلی ہرن بگڑا

اثر اکسیر کا من قدم سے تیرے پایا ہے
جذامی خاک رہ مل کر بناتے ہیں بدن بگڑا

تری تقلید سے کبک دری نے ٹھوکریں کھائیں
چلا جب جانور انساں کی چال اس کا چلن بگڑا

زوال حسن کھلواتا ہے میوے کی قسم مجھ سے
لگایا داغ خط نے آن کر سیب ذقن بگڑا

رخ سادہ نہیں اس شوخ کا نقش عداوت ہے
نظر آتے ہی آپس میں ہر اہل انجمن بگڑا

وہ بد خو طفل اشک اے چشم تر ہیں دیکھنا اک دن
گھروندے کی طرح سے گنبد چرخ کہن بگڑا

صف مژگاں کی جنبش کا کیا اقبال نے کشتہ
شہدون کے ہوئے سالار جب ہم سے تمن بگڑا

کسی کی جب کوئی تقلید کرتا ہے میں روتا ہوں
ہنسا گل کی طرح غنچہ جہاں اس کا دہن بگڑا

کمال دوستی اندیشہ دشمن نہیں رکھتا
کسی بھونرے سے کس دن کوئی رشک یاسمن بگڑا

رہی نفرت ہمیشہ داغ عریانی کو پھاہے سے
ہوا جب قطع جامہ پر ہمارے پیرہن بگڑا

رگڑوائیں یہ مجھ سے ایڑیاں غربت میں وحشت نے
ہوا مسدود رستہ جادہ راہ وطن بگڑا

کہا بلبل نے جو توڑا گل سوسن کو گلچیں نے
الہٰی خیر کیجو نیلِ رخسار چمن بگڑا

ارادہ میرے کھانے کا نہ اے زاغ و زغن کیجیو
وہ کشتہ ہوں جسے سونگھے سے کتوں کا بدن بگڑا

امانت کی طرح رکھا زمین نے روز محشر تک
نہ اک مو کم ہوا اپنا نہ اک تار کفن بگڑا

جہاں خالی نہیں رہتا کبھی ایذا و ہندی سے
ہوانا سورنو پیدا اگر زخم کہن بگڑا

تونگر تھا بنی تھی جب تک اس محبوب عالم سے
میں مفلس ہو گیا جس روز سے وہ سیمتن بگڑا

لگے منھ بھی چڑھانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زبان بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجئے دہن بگڑا

بناوٹ کیف مے سے کھل گئی اس شوخ کی آتشؔ
لگا کر منھ سے پیمانے کو وہ پیماں شکن بگڑا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔