آب حیات/اشرف علی خاں فغاں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

فغاں تخلص اشرف خاں نام (گجرأت احمد آباد کے سادات عظام کے خاندان سے تھے، سودا کے دیوان پر جو دیباچہ ہے وہ انھیں کا لکھا ہوا ہے۔ خود شاعر تھے اور زین العابدین آشنا ان کا بیٹا بھی شاعر تھا۔ بعض حالات لطف خاں موصوف کے سودا کے حال میں لکھے گئے۔)، احمد شاہ بادشاہ کے کوکہ تھے، بدلہ سنجی و لطیفہ گوئی کا یہ عالم تھا کہ زبان سے پھلجڑی کی طرح پھول جھڑتے تھے اس لئے ظریف الملک کوکہ خاں خطاب تھا اگرچہ شاعری پیشہ نہ تھے، مگر شعر کا مزہ ایسی بُری بلا ہے کہ اس کے چٹخارے کے سامنے سارے بے مزہ ہو جاتے ہیں، چنانچہ وہ ایسے ہی صاحب کمالوں میں ہیں، ابتدائے عمر میں شعر گوئی کا شوق پیدا ہوا، طبیعت ایسی مناسب واقع ہوئی تھی کہ جبھی سے اس کام میں نام پیدا کیا، مصحفی نے اپنے تذکرہ میں قزلباش خاں امید کا شاگرد لکھا ہے۔ مگر اُن کی اُردو ابھی سُن چکے، شاید فارسی میں اصلاح لی ہو، گلزار ابراہیمی میں لکھا ہے کہ ندیم کے شاگرد تھے اور خود بھی جا بجا کہتے ہیں :

ہر چند اب ندیم کا شاگرد ہے فغاں

دو دن کے بعد دیکھیو اُستاد ہو گیا

دشتِ جنوں میں کیوں نہ پھروں میں برہنہ پا

اب تو فغاں ندیم مرا رہ نما ہوا

الغرض جب احمد شاہ درانی کے حملوں نے ہندوستان کو تہ و بالا کر دیا، اور دِلی میں دربار کا طور بے طور دیکھا تو مرشد آباد میں ایرج خاں اُس کے چچا کا ستارہ عروج پر تھا۔ اِن سے ملنے گئے اور وہاں سے علاقہ اودھ میں پہنچے، اس زمانہ میں دِلی کا آدمی کہیں جاتا تھا تو ایسا سمجھتے تھے گویا پیر زادے آئے بلکہ اس کی نشست و برخاست کو سلیقہ اور امتیاز کا دستور العمل سمجھتے تھے۔ اس وقت شاہِ اودھ بھی نواب وزیر ہی کہلاتے تھے۔ نواب شجاع الدولہ مرحوم حاکم اودھ ان کے ساتھ بہت تعظیم سے پیش آئے اور اعزاز و اکرام کے ساتھ رکھا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ یہ نازک مزاج بہت تھا اور زمانہ بھی ایسا تھا کہ ایسے مزاجوں کی نزاکتیں پیش آ جاتی تھیں، چنانچہ ایک دن اختلاط میں ان کا کپڑا نواب کے ہاتھ سے جل گیا، یہ رنجیدہ ہو کر عظیم آباد چلے گئے، وہاں جا کر اس سے زیادہ عزت پائی اور راجہ شتاب رائے کی سرکار میں اختیار اور اقتدار حاصل کیا۔ راجہ صاحب بھی علاوہ خاندانی بزرگی کے اِن کے کمال ذاتی اور شیریں کلامی اور علم مجلسی کے سبب سے نہایت عزیز رکھتے تھے، چنانچہ وہیں رہے اور باقی عمر خوشحالی میں بسر کر کے دنیا سے انتقال کیا۔

ان کے کمال کی سند اس سے زیادہ نہیں ہو سکتی کہ مرزا رفیع جیسے صاحبِ کمال اکثر ان کے اشعار مزے لے لے پڑھا کرتے اور بہت تعریف کیا کرتے تھے۔ حقیقت میں مرزا کا خود بھی یہی انداز تھا، کیونکہ ان کے کلام میں ہندی کے محاورے نے فارسیت کے ساتھ نئے لطف سے پختگی پائی ہے، اور ہر خیال کو لطافت اور چونچلے کے ساتھ ادا کرتے ہیں، ان کے جس ویران سے میری آنکھیں روشن ہوئیں، میرے استاد ظاہر و باطن شیخ ابراہیم ذوق کے لڑکپن کا لکھا ہوا تھا، اگرچہ فغاں کیزبان اُسی زمانے کی زبان ہے، مگر فنِ شاعری کے اعتبار سے نہایت باصول اور برجستہ ہے اور الفاظ کی بندش ان کی مشق پر گواہی دیتی ہے، مقدار میں دیوان درد سے کچھ بڑا تھا، مگر فقط غزلوں کا دیوان ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی طبیعت ایشیا کی شاعری کے لئے نہایت مناسب تھی، ان کے حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ تیزی اور طراری کو اُن کے مزاج سے وہ لگاؤ تھا جو باردت اور حرارت کو، لطیفہ گوئی اور حاضر جوابی میں ایسی تھی جیسے تلوار میں جوہر۔

ایک دن راجہ صاحب کے دربار میں غزل پڑھی جس کا قافیہ تھا لالیاں اور جالیاں، سب سخن فہموں نے بہت تعریف کی، راجہ صاحب کی صحبت میں جگنو میاں ایک مسخرے تھے، ان کی زبان سے نکلا کہ نواب صاحب سب قافیے آپ نے باندھے مگر تالیاں رہ گئیں، اُنھوں نے ٹال دیا اور کچھ جواب نہ دیا، راجہ صاحب نے خود فرمایا کہ نواب صاحب! سُنتے ہو جگنو میاں کیا کہتے ہیں ؟ اُنھوں نے کہا کہ مہاراج اس قافیہ کو مبتذل سمجھ کر چھوڑ دیا تھا اور حضور فرمائیں تو اب بھی ہو سکتا ہے، مہاراج نے کہا کہ ہاں کچھ کہنا تو چاہیے۔ انھوں نے اِسی وقت پڑھا :

جگنو میاں کی دُم جو چمکتی ہے رات کو

سب دیکھ دیکھ اس کو بجاتے ہیں تالیاں

تمام دربار چمک اُٹھا اور میاں جگنو مدھم ہو کر رہ گئے۔

افسوس یہ ہے کہ اس قسم کے لطائف بڑھتے بڑھتے ان سے اور راجہ صاحب سے بھی شکر رنجی ہو گئی، اس کی بنیاد یہ ہوئی کہ احمد شاہ دُرانی نے جو سلطنت پر حملے کئے، ایک دن اس کی دست درازی اور بے اعتدالیوں کا ذکر ہو رہا تھا، خدا جانے طنز سے یا سادہ مزاجی سے راجہ صاحب نے کہا کہ نواب صاحب ! ملکہ زمانی کو احمد شاہ درانی کیوں کر لے گیا، انھیں بات ناگوار ہوئی، افسردہ ہو کر بولے کہ مہاراج جس طرح سیتا جی کو راون لے گیا تھا، اسی طرح وہ لے گیا۔ اُسی دن سے دربار میں جانا چھوڑ دیا۔

اُن کی لیاقت اور حُسنِ تدبیر کو اس بات سے قیاس کر سکتے ہیں کہ حکام فرنگ سے اس عالم میں اس طرح رسائی پیدا کی کہ باقی عمر فارغ البالی اور خوشحالی میں گزاری، ۱۱۸۶ ہجری میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔

مبتلائے عشق کو اے ہمدماں شادی کہاں

آ گئے اب تو گرفتاری میں آزادی کہاں

کوہ میں مسکن کبھی ہے اور کبھی صحرا کے بیچ

خانہ الفت ہو ویراں ہم کو آبادی کہاں

ایک میں تو قتل سے خوش ہوں و لیکن مجھ سوا

پیش جاوے گی مرے قاتل یہ جلادی کہاں

کاش آ جاوے قیامت اور کہے دیوانِ حشر

وہ فغاں جو ہے گریباں چاک فریادی کہاں

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

خط دیجئیو چھپا کے ملے وہ اگر کہیں

لینا نہ میرے نام کو اے نامہ بر کہیں

بادِ صبا توں عقدہ کشا اس کی ہو جیو

مجھ سا گرفتہ دل اگر آوے نظر کہیں

اتنا وفور خوش نہیں آتا ہے اشک کا

عالم کو مت ڈبوئیو اے چشمِ تر کہیں

میری طرف سے خاطرِ صیاد جمع ہے

کیا اُڑ سکے گا طائرِ بے بال و پَر کہیں

تیری گلی میں خاک بھی چھانی کہ دل ملے

ایسا ہی گم ہوا کہ نہ آیا نظر کہیں

رونا جہاں تلک تھا میری جان رو چکا

مطلق نہیں ہے چشم میں نم کا اثر کہیں

باور اگر تجھے نہیں آتا تو دیکھ لے

آنسو کہیں ڈھلک گئے لختِ جگر کہیں

ایذا فغاں کے حق میں یہاں تک روا نہیں

ظالم یہ کیا ستم ہے خدا سے بھی ڈر کہیں

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

بے فائدہ ہے آرزوئے سیم و زر فغاں

کس زندگی کے واسطے یہ دردِ سر فغاں

جلتے ہیں اس گلی میں فرشتے کے پر فغاں

کیونکر پھرے وہاں سے ترا نامہ بر فغاں

بوئے کبابِ سوختہ آتی ہے خاک سے

دامن سے کیا گرا کوئی لختِ جگر فغاں

یاں تک تو گرم ہے مرے خورشید رو کا حُسن

دیکھے اگر کوئی تو نہ ٹھہرے نظر فغاں

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

کہتے ہیں فصلِ گل تو چمن سے گزر گئی

اے عندلیب تو نہ قفس بیچ مر گئی

شکوہ تو کیوں کرے ہے مرے اشکِ سُرخ کا

تیری کب آستیں مرے لوہو سے بھر گئی

اتنا کہاں رفیق بصارت ہے چشم کی

دل بھی ادھر گیا مری جیدھر نظر گئی

تنہا اگر میں یار کو پاؤں تو یوں کہوں

انصاف کو نہ چھوڑ مروت اگر گئی

آخر فغاں وہی ہے اُسے کیوں بھلا دیا

وہ کیا ہوئے تپاک وہ الفت کدھر گئی

مجھ سے جو پوچھتے ہو تو ہر حال سکر ہے

یوں بھی گزر گئی مری ووں بھی گزر گئی

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

مفت سودا ہے ارے یار کہاں جاتا ہے

آ مرے دل کی خریدار کہاں جاتا ہے

کچ کلہ تیغ بکف چین برابر و بے باک

یا الٰہی یہ ستمگار کہاں جاتا ہے

لئے جاتی ہے اجل جانِ فغاں کو اے یار

لیجئو تیرا گرفتار کہاں جاتا ہے

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

صنم بنا تو خدائی کا مجھ کو کیا نہ ہوا

ہزار شکر کہ تو بُت ہوا خدا نہ ہوا

کباب ہو گیا آخر کو کچھ بُرا نہ ہوا

عجب یہ دل ہے جلا تو بھی بے مزہ نہ ہوا

شگفتگی سے ہے غنچہ کے تئیں پریشانی

بھلا ہوا کبھی کافر تو مجھ سے وا نہ ہوا

مواد میں جیا آخر کو نیم بسمل جو

غضب ہوا مرے قاتل کا مدعا نہ ہوا

نپٹ ہوا ہوں فضیحت بہت ہوا ہوں خراب

تری طفیل اے خانہ خراب کیسا نہ ہوا

طرف سے اپنی تو نیکی میں ہے مرا صاحب

مری بلا سے فغاں کا اگر بھلا نہ ہوا

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*

کھا پیچ و تاب مجھکو ڈسیں اب وہ کالیاں

ظالم اسی لئے تین نے زلفیں تھیں پالیاں

تنہا نہ در کو دیکھ کے گرتے ہیں اشکِ چشم

سوراخ دل میں کرتی ہیں کانوں کی بالیاں

دیکھا کہ یہ تو چھوڑ ناممکن نہیں مجھے

چلنے لگا وہ شوخ مراتب یہ چالیاں

ہر بات بیچ روٹھنا، ہر دم میں ناخوشی

ہر آن ودکھنا مجھے ہر وقت گالیاں

ایذا ہر ایک طرح سیں دینا غرض مجھے

کچھ بس نہ چل سکا تو یہ طرحیں نکالیاں

ہم نے شبِ فراق میں سُنتا ہے اے فغاں

کیا خاک سو کے حسرتیں دل کی نکالیاں

یہ تھا خیال خواب میں ہے گا یہ روزِ وصل

آنکھیں جو کھل گئیں وہی راتیں ہیں کالیاں