آباد غم و درد سے ویرانہ ہے اس کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آباد غم و درد سے ویرانہ ہے اس کا
by نسیم دہلوی

آباد غم و درد سے ویرانہ ہے اس کا
ٹوٹا ہوا جو دل ہے وہ کاشانہ ہے اس کا

جس دل میں کہ ہے شوق وہ پیمانہ ہے اس کا
جس آنکھ میں ہے کیف وہ مے خانہ ہے اس کا

جب دیکھیے کہتا ہے وہی ذکر سناؤ
معلوم ہوا شوق بھی دیوانہ ہے اس کا

بے ہوش اگر میں ہوں تو باہوش کہاں ہے
جو خلق ہے اس دہر میں دیوانہ ہے اس کا

دن رات ہے یہ مسکن انوار تصور
سینہ جسے کہتے ہیں پری خانہ ہے اس کا

جوبن کی صفائی سے پھسلتی ہیں نگاہیں
پڑتی ہے جدھر آنکھ پری خانہ ہے اس کا

اے دل ہوس وصل سے مشتاق ہیں محروم
جاں اول دیدار میں بیگانہ ہے اس کا

جو سینہ روشن ہے وہ ہے منزل الفت
جو دل صفت شمع ہے پروانہ ہے اس کا

کہتے ہیں جسے حسن وہ ہے شمع جہاں تاب
کہتے ہیں جسے عشق وہ پروانہ ہے اس کا

جب فصل گل آتی ہے صدا دیتی ہے وحشت
زنجیر کا گل نالۂ مستانہ ہے اس کا

دیکھا تو سفر روح کو ہوتا ہے اسی سے
کہتے ہیں جسے موت وہ پروانہ ہے اس کا

گوہر سے فزوں دیدۂ عاشق کے ہیں آنسو
دامن میں ہے معشوق کے جو دانہ ہے اس کا

کچھ رتبہ عاشق سے بھی اے جاں ہو خبردار
سامان کئی روز سے شاہانہ ہے اس کا

منہ عاشق صادق کے نہ چڑھ واعظ مکار
ہر حال میں جو حال ہے رندانہ ہے اس کا

آگاہ نہیں قصۂ منصور سے اے دل
دشمن ہوں زن و مرد وہ یارانہ ہے اس کا

کیا پوچھتے ہو حال نسیمؔ جگر افگار
دیکھا جسے خوش وضع وہ دیوانہ ہے اس کا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.