آئے ہیں ہم جہاں میں غم لے کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آئے ہیں ہم جہاں میں غم لے کر
by حسرتؔ عظیم آبادی

آئے ہیں ہم جہاں میں غم لے کر
دل پر خوں و چشم نم لے کر

ساغر مے کہاں ہے اے گردوں
کیا کریں تیرا جام جم لے کر

وعدہ اقسام کر چکا تو خلاف
اب کے چھوڑوں گا میں قسم لے کر

اس کی محفل سے کب اٹھے گا رقیب
یہ سعادت بھرے قدم لے کر

تر و خشک جہاں پہ قانع رہ
دست دوراں سے بیش و کم لے کر

سر سے مارا کریں پڑے اپنے
گو شہاں طبل اور علم لے کر

راہ میں تیری ضعف سے حسرتؔ
چلے ہر ہر قدم میں دم لے کر


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.