آئے کیا تیرا تصور دھیان میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آئے کیا تیرا تصور دھیان میں
by قلق میرٹھی

آئے کیا تیرا تصور دھیان میں
کچھ سے کچھ ہے آن ہی کی آن میں

یاں اشارات غلط پر زندگی
واں ادا ہے اور ہی سامان میں

تیغ قاتل ہے رگ گردن مری
آب پیکاں دم تن بے جان میں

یا تو قاتل ہو گیا رحم آشنا
یا پڑے ہوں گے کہیں میدان میں

اشک اپنے پھر پھرا کر ہر طرف
آئے آخر تیرے ہی دامان میں

ہائے کیسے کیسے وارستہ مزاج
سرنگوں دم بند ہیں زندان میں

کعبہ آنکھوں میں سماتا ہی نہیں
کیا بتوں نے کہہ دیا کچھ کان میں

آنکھ کے اٹھتے ہی اٹھتے کچھ نہ تھا
ہم چلے ارمان ہی ارمان میں

دیر و کعبہ پر نہیں موقوف کچھ
اور ہی کچھ شان ہے ہر شان میں

گریۂ صد سری اور ہم کم حوصلہ
کشتی اپنی آ گئی طوفان میں

جنت و دوزخ سے کیا امید و بیم
حسرتیں سی حسرتیں ہیں جان میں

خود پرستی اور اسلام آفریں
کعبۂ عاشق ہے کفرستان میں

اے قلقؔ کل تک گدائے دیر تھے
آج دعوے ہو گئے ایمان میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse