آئی اے گلعذار کیا کہنا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آئی اے گلعذار کیا کہنا
by وزیر علی صبا لکھنؤی

آئی اے گلعذار کیا کہنا
خوب آئی بہار کیا کہنا

مہندی مل کر ہے چوٹ مرجاں پر
ہاتھ لالہ نگار کیا کہنا

مجھ سے عاشق کے اور یوں نفریں
واہ شاباش یار کیا کہنا

برق بھی درکنار رہ جائے
ہاں دل بے قرار کیا کہنا

لاکھ بار امتحان عشق کیا
نہ کہا ایک بار کیا کہنا

بحث گریہ میں ابر بول گیا
دیدۂ اشک بار کیا کہنا

میں تو روتا ہوں آپ ہنستے ہیں
یہی ہوتا ہے یار کیا کہنا

سختیٔ عشق جھیل لے اے دل
واہ رے بردبار کیا کہنا

مر گئے ہم مگر نہ رحم آیا
وہی تیور ہیں یار کیا کہنا

خار خار غم دل پر درد
چیخ کر اے ہزار کیا کہنا

کہہ تو للکار لیں رقیبوں کو
بات رکھ لی نگار کیا کہنا

جوش الفت میں اور ضبط اے دل
جبر پر اختیار کیا کہنا

یوں تو جو گل ہے خوب ہے لیکن
تیرا اے گلعذار کیا کہنا

اے صباؔ دعویٔ انا الحق ہے
خوب سوچے ہو یار کیا کہنا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse