آئیے جلوۂ دیدار کے دکھلانے کو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آئیے جلوۂ دیدار کے دکھلانے کو
by وحید الہ آبادی

آئیے جلوۂ دیدار کے دکھلانے کو
پھونک دے برق تجلی مرے کاشانے کو

دیکھیے کون سی جا یار کا ملتا ہے پتہ
کوئی کعبے کو چلا ہے کوئی بت خانے کو

تیری فرقت میں تصور ہے یہ بے دردی کا
خواب ہم جانتے ہیں نیند کے آ جانے کو

بعد میرے جو ہوا دشت میں مجنوں کا گزر
رو دیا دیکھ کے خالی مرے ویرانے کو

کام آ جاتی ہے ہم بزمی بھی روشن دل کی
شمع ہم رنگ بنا لیتی ہے پروانے کو

آج پھر شہر کے کوچے نظر آتے ہیں اداس
کس طرف لے گئی وحشت ترے دیوانے کو

اے جنوں تنگ ہوئی وسعت صحرا تجھ سے
اب کہاں جائے طبیعت کوئی بہلانے کو

گل پہ بلبل تھا کہیں شمع پہ پروانہ تھا
ہم نے ہر رنگ میں دیکھا ترے پروانے کو

وا شد دل نہ ہوئی غنچۂ خاطر نہ کھلا
کون سے باغ میں آئے تھے ہوا کھانے کو

میں نے جب وادئ غربت میں قدم رکھا تھا
دور تک یاد وطن آئی تھی سمجھانے کو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse