آئینۂ دل میں کچھ اگر ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آئینۂ دل میں کچھ اگر ہے
by جوشش عظیم آبادی

آئینۂ دل میں کچھ اگر ہے
تیرا ہی جمال جلوہ گر ہے

ہم مر گئے تیری جستجو میں
بے رحم کہاں ہے تو کدھر ہے

رہبر نہیں چاہتی رہ عشق
واں شوق ہی اپنا راہ بر ہے

کیوں مارے ہے لاف حج اکبر
اپنے کئے پر بھی کچھ نظر ہے

کعبے سی جگہ پہنچ پھر آیا
تو حاجی نہیں ہے گیدی خر ہے

اس در ہی کی آرزو میں ؔجوشش
یہ مشت غبار در بہ در ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.