آئینہ دیکھتے ہی وہ دیوانہ ہو گیا
Appearance
آئینہ دیکھتے ہی وہ دیوانہ ہو گیا
دیکھا کسے کہ شمع سے پروانہ ہو گیا
گل کر کے شمع سوئے تھے ہم نامراد آج
روشن کسی کے آنے سے کاشانہ ہو گیا
دیوانہ قیس پہلے ہمیں چھیڑتا رہا
پھر رفتہ رفتہ نجد میں یارانہ ہو گیا
کافی نہ مہر خم کو ہوئے لک ہائے ابر
اب اس قدر وسیع یہ خم خانہ ہو گیا
حاصل بہ اختصاص ہے اس دل کو یہ شرف
کعبہ بنا کبھی کبھی بت خانہ ہو گیا
لائے چرا کے بہر پرستش بتوں کو گھر
ویران چار روز میں بت خانہ ہو گیا
منہ چوم لوں یہ کس نے کہا مجھ کو دیکھ کر
دیوانہ تھا ہی اور بھی دیوانہ ہو گیا
توڑی تھی جس سے توبہ کسی نے ہزار بار
افسوس نذر توبہ وہ پیمانہ ہو گیا
مے توبہ بن کے آئی تھی لب تک کہ اے ریاضؔ
لبریز اپنی عمر کا پیمانہ ہو گیا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |