آئینہ دیکھتے ہی وہ دیوانہ ہو گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آئینہ دیکھتے ہی وہ دیوانہ ہو گیا
by ریاض خیرآبادی

آئینہ دیکھتے ہی وہ دیوانہ ہو گیا
دیکھا کسے کہ شمع سے پروانہ ہو گیا

گل کر کے شمع سوئے تھے ہم نامراد آج
روشن کسی کے آنے سے کاشانہ ہو گیا

دیوانہ قیس پہلے ہمیں چھیڑتا رہا
پھر رفتہ رفتہ نجد میں یارانہ ہو گیا

کافی نہ مہر خم کو ہوئے لک ہائے‌ ابر
اب اس قدر وسیع یہ خم خانہ ہو گیا

حاصل بہ اختصاص ہے اس دل کو یہ شرف
کعبہ بنا کبھی کبھی بت خانہ ہو گیا

لائے چرا کے بہر پرستش بتوں کو گھر
ویران چار روز میں بت خانہ ہو گیا

منہ چوم لوں یہ کس نے کہا مجھ کو دیکھ کر
دیوانہ تھا ہی اور بھی دیوانہ ہو گیا

توڑی تھی جس سے توبہ کسی نے ہزار بار
افسوس نذر توبہ وہ پیمانہ ہو گیا

مے توبہ بن کے آئی تھی لب تک کہ اے ریاضؔ
لبریز اپنی عمر کا پیمانہ ہو گیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse