آئنہ دیکھ کے کہتا ہے یہ دلبر میرا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آئنہ دیکھ کے کہتا ہے یہ دلبر میرا  (1911) 
by وفا لکھنوی

آئنہ دیکھ کے کہتا ہے یہ دلبر میرا
ماہ کنعاں بھی نہیں حسن میں ہمسر میرا

دل قاتل سے پس قتل بھی نکلا نہ بخار
لاشہ تشہیر کیا کر کے جدا سر میرا

یار پھر جاتا ہے آ کر مرے دروازے سے
مجھ سے برگشتہ ہے کس درجہ مقدر میرا

راہ گم کردہ وہ خود پھرتا ہے اک مدت سے
کوئے الفت میں خضر خاک ہو رہبر میرا

نہیں معلوم کہ قاصد پہ مرے کیا گزری
آج قابو میں نہیں ہے دل مضطر میرا

میکدے پر مرا قبضہ ہو میں وہ مے کش ہوں
شیشہ میرا ہے سبو میرا ہے ساغر میرا

کیوں لگا رہنے دیا اے مرے قاتل تسمہ
ایک ہی وار میں کرنا تھا جدا سر میرا

آئیے آئیے دکھلائیے صورت اپنی
دم شب ہجر میں آیا ہے لبوں پر میرا

قتل ہوتے ہوئے جی بھر کے انہیں دیکھ لیا
حوصلہ آج تو نکلا تہ خنجر میرا

اے وفاؔ تھی جو تمنا مجھے پا بوسی کی
پائے قاتل پہ گرا ہو کے جدا سر میرا


This work is published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.