آئنہ خانہ کریں گے دل ناکام کو ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آئنہ خانہ کریں گے دل ناکام کو ہم
by حیدر علی آتش

آئنہ خانہ کریں گے دل ناکام کو ہم
پھیریں گے اپنی طرف روئے دل آرام کو ہم

شام سے صبح تلک دور شراب آخر ہے
روتے ہیں دیکھ کے خنداں دہن جام کو ہم

یاد رکھنے کی جگہ ہے یہ طلسم حیرت
صبح کو دیکھتے ہی بھول گئے شام کو ہم

آنکھ وہ فتنۂ دوراں کسے دکھلاتا ہے
شعبدہ جانتے ہیں گردش ایام کو ہم

فتنہ انگیزی بھی چھپتی ہے کہیں پردے میں
سنتے ہیں گبر و مسلماں سے ترے نام کو ہم

خون قاصد تو وہ سفاک سمجھتا ہے حلال
کسی غماز سے بھجوائیں گے پیغام کو ہم

پاؤں پکڑے ہیں زمیں نے یہ ترے کوچہ کی
رہ صد سالہ سمجھتے ہیں اب اک گام کو ہم

دیدۂ یار کہیں کیا اسے کیف مے میں
بھون کر روز گزک کرتے ہیں بادام کو ہم

بیزۂ خط سے ہوئی اس کی کدورت دہ چند
اب صفائی کے لیے ڈھونڈیں گے حجام کو ہم

یہی تحصیل محبت کا ہے عالم تا حال
پختہ کرتے ہیں ہنوز آرزوئے خام کو ہم

لطف حاصل ہو جو زلفوں میں گرفتاری کا
مول لیں دل کی اسیری کے لیے دام کو ہم

کوچۂ یار میں اپنا جو گزر ہوتا ہے
نگراں رہتے ہیں حسرت سے در و بام کو ہم

حسن سے عشق کی خاطر ہے خدا نے بھیجا
کرتے ہیں آتشؔ اسے آئے ہیں جس کام کو ہم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse