نخل امید میں ثمر آیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نخل امید میں ثمر آیا (1870)
by منشی شیو پرشاد وہبی
324097نخل امید میں ثمر آیا1870منشی شیو پرشاد وہبی

نخل امید میں ثمر آیا
حسن ان کا مراد پر آیا

قصد کعبہ تھا دیر میں پہونچا
کس طرف دھیان تھا کدھر آیا

رویا میں یاد یار میں جب جب
سیل اشکوں کا تا کمر آیا

واسطہ گو دیا پیمبر کا
نہ مرا پھر کے نامہ بر آیا

کر دیا کشتہ چرخ نے لیکن
نہ بغل میں وہ سیم بر آیا

خوب دیکھا مگر سوا تیرے
نہ کوئی دوسرا نظر آیا

جان دی ہم نے درد فرقت سے
نہ خبر کو وہ بے خبر آیا

صبح کی ہم نے تارے گن گن کر
پر وہ مہ رو نہ رات بھر آیا

کٹ گئی باتوں ہی میں وصل کی رات
مدعا دل کا کچھ نہ بر آیا

جب دیا اس نے بھر کے غیر کو جام
خون آنکھوں میں میری بھر آیا

ہو گئی شرم مانع وصلت
رحم بھی ان کو مجھ پہ گر آیا

نظر چرخ سے گرا خورشید
مہوش اپنا جو بام پر آیا

اپنے دل میں یہ سوچ لو وہبیؔ
جان جائے گی دل اگر آیا


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D9%86%D8%AE%D9%84_%D8%A7%D9%85%DB%8C%D8%AF_%D9%85%DB%8C%DA%BA_%D8%AB%D9%85%D8%B1_%D8%A2%DB%8C%D8%A7