اردو شاعری

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
          قطعہ  

حال کیا ہو گیا ہے امت مسلمہ کا

غریبی پر, غلامی پر اتر آئے ہیں

ہارون ماضی کو دیکھ‚ہال کو دیکھ

پہلے ہم کہاں تھے اب کدھر آئے ہیں

    ہارون صدیق

غزل

لوگ کرتے ہیں عشق دل بہلانے کےلیے

ہم نے کیا ہے عشق ‚ نبھانے کے لیے

یہ مٹی کا انسان بھی عجیب ہی ہے

آیاہی ہے دنیا میں دنیا سے جانےکے لیے

اے ساقی! پینے کی مشق  کر لی کئی بار ہم نے

جب وہ موجود ہیں نظروں سے پلانے کے لیے

یادیں مٹ گئیں اس کی ہارون اب تو

کچھ باقی نہ رہ سکا اب اور مٹانے کے لیے

ہارون صدیق

میری ہر ہر دعا تیری راحت بنے دہر تیرے لئے مثلِ جنت بنے تیرے عارض تبّسم سے مہکے رہیں تیرے گیسو محبت سے لہکے رہیں اپنی بانہوں کو شاخیں، خوشی کی سدا تیری بانہوں میں محبوب، ڈالے رہیں تیرا گلزارِ مُسکان قائم رہے تیرا چہرۂ خورسند دائم رہے ہر قدم پر صبا قدم چوم لے تیرے رخسار کو کرم چوم لے تیرے سر پر گھٹائیں ہوں عنبر فشاں

تیرے ہمرہ نوائیں ہوں آتش بجاں

تو جامِ بہاری سے پلتا رہے بادۂ زیست بھر بھر نگلتا رہے میرے محبوب تیری خوشی کیلئے شب میں تاروں کا پُر نور بستر بچھے چاند تیرا تجھے جامِ مخمور دے اور سَحَر تیرے گھر میں اجالے بھرے میرے محبوب تیری خوشی کیلئے میرے محبوب تیری ہنسی کیلئے ہر صدف موتیوں کی لڑی رول دے ہر کلی اپنی بندِ قبا کھول دے موجِ دریا بھی لعل و گہر ڈول دے اور گھنگھرو پہن کے یوں ناچے بہار جیسے لرزے کوئی پُرانی دیوار میرے محبوب تیری ہنسی کی قسم میرے دل کی تڑپ ، میرے غم کی قسم میرے جاناں ترے ہر شگوفے کو ہم وہ جو تلقیں کے ڈبے میں دیتے تھے تم جو نصیحت کے تھے ، جو ہدایت کے تھے وہ جو در بند رنگیں عنایت کے تھے میرے جاناں انہیں گُل بنائیں گے ہم یہ مزاجوں کے گیسو، رویّے کے سنبل

میرے جاناں انہیں بھی سنواریں گے ہم
نجمِ خوبی سے ہر دم سجائیں گے ہم

میرے محسن بہت تیرے احساں رہے میرے جاناں انہیں کیا چکائیں گے ہم بارِ احساں یہ دل سے اٹھائیں گے ہم تیری یادیں بہت جب ستائیں گی جاں بزمِ عالم کو تب بھول جائیں گے ہم میرے محبوب ترے ہنسی کی قسم بزمِ دنیا میں شمعیں جلائیں گے ہم


غزل

اے جانِ تمنّا، بزمِ چمن، تم کب سے ہو یوں ناراضِ وطن مغموم ہیں سب کوہسار و دَمن اب آؤ مرے دلدار سجن

کب ہم سے نگاہِ ناز پھری کب ہم سے تری دستار چُھٹی کب حشر بپا، کب جان چلی، کچھ یاد نہیں اے پھول بدن

ہر ایک سے جا جا کہتی رہی محبوب ملا دو مجھ کو کوئی عارض کا پتا بتلا دو کوئی تا کم ہو ذرا اِس دل کی چُبھن

جا بادِ نسیمی ان کو سنا؛ رُودادِ وفا، کہ جن کے بِنا اشکوں کے ترانے گاتی ہے دن رات مری یہ چشمِ کُہن

کس حال میں ہے بسمل یہ تیرا اک بار خبر لے قاتلِ جاں آ زخم بڑھا مژگان سے تُو مُجھ تیرے بنا مرنا ہے کٹھن

اب خاک ترے بن جینا ہے اب خاک ترے بن مرنا ہے مہندی کی دھنک ،چوڑی کی پھبن بے سود ہے سب یہ گور و کفن

اے چاند تجھی سے کہتے رہے اس دل کی کہانی، دل کا حزن اب جاکے چھپا کس دیس میں تُو اب کس سے بیاں ہوں رنج و مَحَن