یکسو کشادہ روی پر چیں نہیں جبیں بھی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یکسو کشادہ روی پر چیں نہیں جبیں بھی
by میر تقی میر

یکسو کشادہ روی پر چیں نہیں جبیں بھی
ہم چھوڑی مہر اس کی کاش اس کو ہووے کیں بھی

آنسو تو تیرے دامن پونچھے ہے وقت گریہ
ہم نے نہ رکھی منہ پر اے ابر آستیں بھی

کرتا نہیں عبث تو پارہ گلو فغاں سے
گزرے ہے پار دل کے اک نالۂ حزیں بھی

ہوں اہتزار میں میں آئینہ رو شتاب آ
جاتا ہے ورنہ غافل پھر دم تو واپسیں بھی

سینے سے تیر اس کا جی کو تو لیتا نکلا
پر ساتھوں ساتھ اس کے نکلی اک آفریں بھی

ہر شب تری گلی میں عالم کی جان جا ہے
آگے ہوا ہے اب تک ایسا ستم کہیں بھی

شوخی جلوہ اس کی تسکین کیونکے بخشے
آئینوں میں دلوں کے جو ہے بھی پھر نہیں بھی

گیسو ہی کچھ نہیں ہے سنبل کی آفت اس کا
ہیں برق خرمن گل رخسار آتشیں بھی

تکلیف نالہ مت کر اے درد دل کہ ہوں گے
رنجیدہ راہ چلتے آزردہ ہم نشیں بھی

کس کس کا داغ دیکھیں یا رب غم بتاں میں
رخصت طلب ہے جاں بھی ایمان اور دیں بھی

زیر فلک جہاں ٹک آسودہ میرؔ ہوتے
ایسا نظر نہ آیا اک قطعۂ زمیں بھی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse