یا رب کوئی ہو عشق کا بیمار نہ ہووے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یا رب کوئی ہو عشق کا بیمار نہ ہووے
by میر تقی میر

یا رب کوئی ہو عشق کا بیمار نہ ہووے
مر جائے ولے اس کو یہ آزار نہ ہووے

زنداں میں پھنسے طوق پڑے قید میں مر جائے
پر دام محبت میں گرفتار نہ ہووے

اس واسطے کانپوں ہوں کہ ہے آہ نپٹ سرد
یہ باؤ کلیجے کے کہیں پار نہ ہووے

صد نالۂ جانکاہ ہیں وابستہ چمن سے
کوئی بال شکستہ پس دیوار نہ ہووے

پژمردہ بہت ہے گل گلزار ہمارا
شرمندۂ یک گوشۂ دستار نہ ہووے

مانگے ہے دعا خلق تجھے دیکھ کے ظالم
یا رب کسو کو اس سے سروکار نہ ہووے

کس شکل سے احوال کہوں اب میں الٰہی
صورت سے مری جس میں وہ بیزار نہ ہووے

ہوں دوست جو کہتا ہوں سن اے جان کے دشمن
بہتر تو تجھے ترک ہے تا خوار نہ ہووے

خوباں برے ہوتے ہیں اگرچہ ہیں نکورو
بے جرم کہیں ان کا گنہ گار نہ ہووے

باندھے نہ پھرے خون پر اپنی تو کمر کو
یہ جان سبک تن پہ ترے بار نہ ہووے

چلتا ہے رہ عشق ہی اس پر بھی چلے تو
پر ایک قدم چل کہیں زنہار نہ ہووے

صحرائے محبت ہے قدم دیکھ کے رکھ میرؔ
یہ سیر سر کوچہ و بازار نہ ہووے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse