یارو مجھے معاف رکھو میں نشے میں ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یارو مجھے معاف رکھو میں نشے میں ہوں
by میر تقی میر

یارو مجھے معاف رکھو میں نشے میں ہوں
اب دو تو جام خالی ہی دو میں نشے میں ہوں

ایک ایک قرط دور میں یوں ہی مجھے بھی دو
جام شراب پر نہ کرو میں نشے میں ہوں

مستی سے درہمی ہے مری گفتگو کے بیچ
جو چاہو تم بھی مجھ کو کہو میں نشے میں ہوں

یا ہاتھوں ہاتھ لو مجھے مانند جام مے
یا تھوڑی دور ساتھ چلو میں نشے میں ہوں

معذور ہوں جو پاؤں مرا بے طرح پڑے
تم سرگراں تو مجھ سے نہ ہو میں نشے میں ہوں

بھاگی نماز جمعہ تو جاتی نہیں ہے کچھ
چلتا ہوں میں بھی ٹک تو رہو میں نشے میں ہوں

نازک مزاج آپ قیامت ہیں میرؔ جی
جوں شیشہ میرے منہ نہ لگو میں نشے میں ہوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse