یاد آؤ مجھے للہ نہ تم یاد کرو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یاد آؤ مجھے للہ نہ تم یاد کرو
by اختر شیرانی
304998یاد آؤ مجھے للہ نہ تم یاد کرواختر شیرانی

یاد آؤ مجھے للہ نہ تم یاد کرو
اپنی اور میری جوانی کو نہ برباد کرو

شرم رونے بھی نہ دے بیکلی سونے بھی نہ دے
اس طرح تو مری راتوں کو نہ برباد کرو

حد ہے پینے کی کہ خود پیر مغاں کہتا ہے
اس بری طرح جوانی کو نہ برباد کرو

یاد آتے ہو بہت دل سے بھلانے والو
تم ہمیں یاد کرو تم ہمیں کیوں یاد کرو

آسماں رتبہ محل اپنے بنانے والو
دل کا اجڑا ہوا گھر بھی کوئی آباد کرو

ہم کبھی آئیں ترے گھر مگر آئیں گے ضرور
تم نے یہ وعدہ کیا تھا کہ نہیں یاد کرو

چاندنی رات میں گل گشت کو جب جاتے تھے
آہ عذرا کبھی اس وقت کو بھی یاد کرو

میں بھی شائستۂ الطاف ستم ہوں شاید
میرے ہوتے ہوئے کیوں غیر پہ بیداد کرو

صدقے اس شوخ کے اخترؔ یہ لکھا ہے جس نے
عشق میں اپنی جوانی کو نہ برباد کرو

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse