ہے حال جائے گریہ جاں پر آرزو کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہے حال جائے گریہ جاں پر آرزو کا
by میر تقی میر

ہے حال جائے گریہ جاں پر آرزو کا
روئے نہ ہم کبھو ٹک دامن پکڑ کسو کا

جاتی نہیں اٹھائی اپنے پہ یہ خشونت
اب رہ گیا ہے آنا میرا کبھو کبھو کا

اس آستاں سے کس دن پر شور سر نہ پٹکا
اس کی گلی میں جا کر کس رات میں نہ کوکا

شاید کہ مند گئی ہے قمری کی چشم گریاں
کچھ ٹوٹ سا چلا ہے پانی چمن کی جو کا

اپنے تڑپنے کی تو تدبیر پہلے کر لوں
تب فکر میں کروں گا زخموں کے بھی رفو کا

دانتوں کی نظم اس کے ہنسنے میں جن نے دیکھی
پھر موتیوں کی لڑ پر ان نے کبھو نہ تھوکا

یہ عیش گا نہیں ہے یاں رنگ اور کچھ ہے
ہر گل ہے اس چمن میں ساغر بھرا لہو کا

بلبل غزل سرائی آگے ہمارے مت کر
سب ہم سے سیکھتے ہیں انداز گفتگو کا

گلیاں بھری پڑی ہیں اے باد زخمیوں سے
مت کھول پیچ ظالم اس زلف مشک بو کا

وے پہلی التفاتیں ساری فریب نکلیں
دینا نہ تھا دل اس کو میں میرؔ آہ چوکا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse