ہوتی ہے گرچہ کہنے سے یارو پرائی بات

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہوتی ہے گرچہ کہنے سے یارو پرائی بات
by میر تقی میر

ہوتی ہے گرچہ کہنے سے یارو پرائی بات
پر ہم سے تو تھنبے نہ کبھو منہ پر آئی بات

جانے نہ تجھ کو جو یہ تصنع تو اس سے کر
تس پر بھی تو چھپی نہیں رہتی بنائی بات

لگ کر تدرو رہ گئے دیوار باغ سے
رفتار کی جو تیری صبا نے چلائی بات

کہتے تھے اس سے ملیے تو کیا کیا نہ کہیے لیک
وہ آ گیا تو سامنے اس کے نہ آئی بات

اب تو ہوئے ہیں ہم بھی ترے ڈھب سے آشنا
واں تو نے کچھ کہا کہ ادھر ہم نے پائی بات

بلبل کے بولنے میں سب انداز ہیں مرے
پوشیدہ کب رہے ہے کسو کی اڑائی بات

بھڑکا تھا رات دیکھ کے وہ شعلہ خو مجھے
کچھ رو سیہ رقیب نے شاید لگائی بات

عالم سیاہ خانہ ہے کس کا کہ روز و شب
یہ شور ہے کہ دیتی نہیں کچھ سنائی بات

اک دن کہا تھا یہ کہ خموشی میں ہے وقار
سو مجھ سے ہی سخن نہیں میں جو بتائی بات

اب مجھ ضعیف و زار کو مت کچھ کہا کرو
جاتی نہیں ہے مجھ سے کسو کی اٹھائی بات

خط لکھتے لکھتے میرؔ نے دفتر کیے رواں
افراط اشتیاق نے آخر بڑھائی بات

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse