ہنستے ہو روتے دیکھ کر غم سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہنستے ہو روتے دیکھ کر غم سے
by میر تقی میر

ہنستے ہو روتے دیکھ کر غم سے
چھیڑ رکھی ہے تم نے کیا ہم سے

مند گئی آنکھ ہے اندھیرا پاک
روشنی ہے سو یاں مرے دم سے

تم جو دل خواہ خلق ہو ہم کو
دشمنی ہے تمام عالم سے

درہمی آ گئی مزاجوں میں
آخر ان گیسوان درہم سے

سب نے جانا کہیں یہ عاشق ہے
بہہ گئے اشک دیدۂ نم سے

مفت یوں ہاتھ سے نہ کھو ہم کو
کہیں پیدا بھی ہوتے ہیں ہم سے

اکثر آلات جور اس سے ہوئے
آفتیں آئیں اس کے مقدم سے

دیکھ وے پلکیں برچھیاں چلیاں
تیغ نکلی اس ابروئے خم سے

کوئی بیگانہ گر نہیں موجود
منہ چھپانا یہ کیا ہے پھر ہم سے

وجہ پردے کی پوچھیے بارے
ملیے اس کے کسو جو محرم سے

درپئے خون میرؔ ہی نہ رہو
ہو بھی جاتا ہے جرم آدم سے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse