ہم ہیں مجروح ماجرا ہے یہ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہم ہیں مجروح ماجرا ہے یہ
by میر تقی میر

ہم ہیں مجروح ماجرا ہے یہ
وہ نمک چھڑکے ہے مزہ ہے یہ

آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم
اب جو ہیں خاک انتہا ہے یہ

بود آدم نمود شبنم ہے
ایک دو دم میں پھر ہوا ہے یہ

شکر اس کی جفا کا ہو نہ سکا
دل سے اپنے ہمیں گلہ ہے یہ

شور سے اپنے حشر ہے پردہ
یوں نہیں جانتا کہ کیا ہے یہ

بس ہوا ناز ہو چکا اغماض
ہر گھڑی ہم سے کیا ادا ہے یہ

نعشیں اٹھتی ہیں آج یاروں کی
آن بیٹھو تو خوش نما ہے یہ

دیکھ بے دم مجھے لگا کہنے
ہے تو مردہ سا پر بلا ہے یہ

میں تو چپ ہوں وہ ہونٹ چاٹے ہے
کیا کہوں ریجھنے کی جا ہے یہ

ہے رے بیگانگی کبھو ان نے
نہ کہا یہ کہ آشنا ہے یہ

تیغ پر ہاتھ دم بہ دم کب تک
اک لگا چک کہ مدعا ہے یہ

میرؔ کو کیوں نہ مغتنم جانے
اگلے لوگوں میں اک رہا ہے یہ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse