ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے
by میر تقی میر

ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے

جن کی خاطر کی استخواں شکنی
سو ہم ان کے نشان تیر ہوئے

نہیں آتے کسو کی آنکھوں میں
ہو کے عاشق بہت حقیر ہوئے

آگے یہ بے ادائیاں کب تھیں
ان دنوں تم بہت شریر ہوئے

اپنے روتے ہی روتے صحرا کے
گوشے گوشے میں آب گیر ہوئے

ایسی ہستی عدم میں داخل ہے
نے جواں ہم نہ طفل شیر ہوئے

ایک دم تھی نمود بود اپنی
یا سفیدی کی یا اخیر ہوئے

یعنی مانند صبح دنیا میں
ہم جو پیدا ہوئے سو پیر ہوئے

مت مل اہل دول کے لڑکوں سے
میرؔ جی ان سے مل فقیر ہوئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse