ہم نے جانا تھا سخن ہوں گے زباں پر کتنے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہم نے جانا تھا سخن ہوں گے زباں پر کتنے
by میر تقی میر

ہم نے جانا تھا سخن ہوں گے زباں پر کتنے
پر قلم ہاتھ جو آئی لکھے دفتر کتنے

میں نے اس اس صناع سے سر کھینچا ہے
کہ ہر اک کوچے میں جس کے تھے ہنر ور کتنے

کشور عشق کو آباد نہ دیکھا ہم نے
ہر گلی کوچے میں اوجڑ پڑے تھے گھر کتنے

آہ نکلی ہے یہ کس کی ہوس سیر بہار
آتے ہیں باغ میں آوارہ ہوئے پر کتنے

دیکھیو پنجۂ مژگاں کی ٹک آتش دستی
ہر سحر خاک میں ملتے ہیں در تر کتنے

کب تلک یہ دل صد پارہ نظر میں رکھیے
اس پر آنکھیں ہی سیے رہتے ہیں دلبر کتنے

عمر گزری کہ نہیں دو آدم سے کوئی
جس طرف دیکھیے عرصے میں ہیں اب خر کتنے

تو ہے بیچارہ گدا میرؔ ترا کیا مذکور
مل گئے خاک میں یاں صاحب افسر کتنے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse