ہم بھی پھرتے ہیں یک حشم لے کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہم بھی پھرتے ہیں یک حشم لے کر
by میر تقی میر

ہم بھی پھرتے ہیں یک حشم لے کر
دستۂ داغ و فوج غم لے کر

دست کش نالہ پیش رو گریہ
آہ چلتی ہے یاں علم لے کر

مرگ اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر

اس کے اوپر کہ دل سے تھا نزدیک
غم دوری چلے ہیں ہم لے کر

تیری وضع ستم سے اے بے درد
ایک عالم گیا الم لے کر

بارہا صید گہ سے اس کی گئے
داغ یاس آہوئے حرم لے کر

ضعف یاں تک کھنچا کہ صورت گر
رہ گئے ہاتھ میں قلم لے کر

دل پہ کب اکتفا کرے ہے عشق
جائے گا جان بھی یہ غم لے کر

شوق اگر ہے یہی تو اے قاصد
ہم بھی آتے ہیں اب رقم لے کر

میرؔ صاحب ہی چوکے اے بد عہد
ورنہ دینا تھا دل قسم لے کر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse