ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا
by میر تقی میر

ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا
دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا

قسم جو کھائیے تو طالع زلیخا کی
عزیز مصر کا بھی صاحب اک غلام لیا

خراب رہتے تھے مسجد کے آگے مے خانے
نگاہ مست نے ساقی کی انتقام لیا

وہ کج روش نہ ملا راستے میں مجھ سے کبھی
نہ سیدھی طرح سے ان نے مرا سلام لیا

مزا دکھاویں گے بے رحمی کا تری صیاد
گر اضطراب اسیری نے زیر دام لیا

مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں
تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا

اگرچہ گوشہ گزیں ہوں میں شاعروں میں میرؔ
پہ میرے شور نے روئے زمیں تمام لیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse