ہر ذی حیات کا ہے سبب جو حیات کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہر ذی حیات کا ہے سبب جو حیات کا
by میر تقی میر

ہر ذی حیات کا ہے سبب جو حیات کا
نکلے ہے جی ہی اس کے لیے کائنات کا

بکھری ہے زلف اس رخ عالم فروز پر
ورنہ بناؤ ہووے نہ دن اور رات کا

در پردہ وہ ہی معنی مقوم نہ ہوں اگر
صورت نہ پکڑے کام فلک کے ثبات کا

ہیں مستحیل خاک سے اجزائے نو خطاں
کیا سہل ہے زمیں سے نکلنا نبات کا

مستہلک اس کے عشق کے جانیں ہیں قدر مرگ
عیسیٰ و خضر کو ہے مزہ کب وفات کا

اشجار ہوویں خامہ و آب سیہ بحار
لکھنا نہ تو بھی ہو سکے اس کی صفات کا

اس کے فروغ حسن سے جھمکے ہے سب میں نور
شمع حرم ہو یا کہ دیا سومنات کا

بالذات ہے جہاں میں وہ موجود ہر جگہ
ہے دید چشم دل کے کھلے عین ذات کا

ہر صفحے میں ہے محو کلام اپنا دس جگہ
مصحف کو کھول دیکھ ٹک انداز بات کا

ہم مذنبوں میں صرف کرم سے ہے گفتگو
مذکور ذکر یاں نہیں صوم و صلٰوۃ کا

کیا میرؔ تجھ کو نامہ سیاہی کا فکر ہے
ختم رسل سا شخص ہے ضامن نجات کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse