ہر جزر و مد سے دست و بغل اٹھتے ہیں خروش

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہر جزر و مد سے دست و بغل اٹھتے ہیں خروش
by میر تقی میر

ہر جزر و مد سے دست و بغل اٹھتے ہیں خروش
کس کا ہے راز بحر میں یا رب کہ یہ ہیں جوش

ابروئے کج ہے موج کوئی چشم ہے حباب
موتی کسی کی بات ہے سیپی کسی کا گوش

ان مغبچوں کے کوچے ہی سے میں کیا سلام
کیا مجھ کو طوف کعبہ سے میں رند درد نوش

حیرت سے ہووے پرتو مہ نور آئینہ
تو چاندنی میں نکلے اگر ہو سفید پوش

کل ہم نے سیر باغ میں دل ہاتھ سے دیا
اک سادہ گل فروش کا آ کر سبد بہ دوش

جاتا رہا نگاہ سے جوں موسم بہار
آج اس بغیر داغ جگر ہیں سیاہ پوش

شب اس دل گرفتہ کو وا کر بزور مے
بیٹھے تھے شیرہ خانے میں ہم کتنے ہرزہ کوش

آئی صدا کہ یاد کرو دور رفتہ کو
عبرت بھی ہے ضرور ٹک اے جمع تیز ہوش

جمشید جس نے وضع کیا جام کیا ہوا
وے نصیحتیں کہاں گئیں کیدھر وے ناؤ نوش

جز لالہ اس کے جام سے پاتے نہیں نشاں
ہے کوکنار اس کی جگہ اب سبو بہ دوش

جھومے ہے بید جائے جوانان میگسار
بالائے خم ہے خشت سر پیر مے فروش

میرؔ اس غزل کو خوب کہا تھا ضمیر نے
پر اے زباں دراز بہت ہو چکی خموش

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse