ہائے اب کون لگی دل کی بجھانے آئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہائے اب کون لگی دل کی بجھانے آئے
by حفیظ جونپوری
299672ہائے اب کون لگی دل کی بجھانے آئےحفیظ جونپوری

ہائے اب کون لگی دل کی بجھانے آئے
جن سے امید تھی اور آگ لگانے آئے

درد مندوں کی یوں ہی کرتے ہیں ہمدردی لوگ
خوب ہنس ہنس کے ہمیں آپ رلانے آئے

خط میں لکھتے ہیں کہ فرصت نہیں آنے کی ہمیں
اس کا مطلب تو یہ ہے کوئی منانے آئے

آنکھ نیچی نہ ہوئی بزم عدو میں جا کر
یہ ڈھٹائی کہ نظر ہم سے ملانے آئے

طعنے بے صبر یوں کے ہائے تشفی کے عوض
اور دکھتے ہوئے دل کو وہ دکھانے آئے

اور تو سب کے لیے ہے تیری محفل میں جگہ
ہم جو بیٹھیں ابھی دربان اٹھانے آئے

چٹکیاں لینے کو پہلو میں رہا ایک نہ ایک
تو نہیں تو تیرے ارمان ستانے آئے

بیکسی کا تو جلا دل مری تربت پہ حفیظؔ
کیا ہوا وہ نہ اگر شمع جلانے آئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse