گل شرم سے بہہ جائے گا گلشن میں ہو کر آب سا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گل شرم سے بہہ جائے گا گلشن میں ہو کر آب سا
by میر تقی میر

گل شرم سے بہہ جائے گا گلشن میں ہو کر آب سا
برقعے سے گر نکلا کہیں چہرہ ترا مہتاب سا

گل برگ کا یہ رنگ ہے مرجاں کا ایسا ڈھنگ ہے
دیکھو نہ جھمکے ہے پڑا وہ ہونٹ لعل ناب سا

وہ مایۂ جاں تو کہیں پیدا نہیں جوں کیمیا
میں شوق کی افراط سے بیتاب ہوں سیماب سا

دل تاب ہی لایا نہ ٹک تا یاد رہتا ہم نشیں
اب عیش روز وصل کا ہے جی میں بھولا خواب سا

سناہٹے میں جان کے ہوش و حواس و دم نہ تھا
اسباب سارا لے گیا آیا تھا اک سیلاب سا

ہم سرکشی سے مدتوں مسجد سے بچ بچ کر چلے
اب سجدے ہی میں گزرے ہے قد جو ہوا محراب سا

تھی عشق کی وہ ابتدا جو موج سی اٹھی کبھو
اب دیدۂ تر کو جو تم دیکھو تو ہے گرداب سا

بہکے جو ہم مست آ گئے سو بار مسجد سے اٹھا
واعظ کو مارے خوف کے کل لگ گیا جلاب سا

رکھ ہاتھ دل پر میرؔ کے دریافت کر کیا حال ہے
رہتا ہے اکثر یہ جواں کچھ ان دنوں بیتاب سا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse