گلا نہیں ہے ہمیں اپنی جاں گدازی کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گلا نہیں ہے ہمیں اپنی جاں گدازی کا
by میر تقی میر

گلا نہیں ہے ہمیں اپنی جاں گدازی کا
جگر پہ زخم ہے اس کی زباں درازی کا

سمند ناز نے اس کے جہاں کیا پامال
وہی ہے اب بھی اسے شوق ترک تازی کا

ستم ہیں قہر ہیں لونڈے شراب خانے کے
اتار لیتے ہیں عمامہ ہر نمازی کا

الٹ پلٹ مری آہ سحر کی کیا ہے کم
اگر خیال تمہیں ہووے نیزہ بازی کا

بتاؤ ہم سے کوئی آن تم سے کیا بگڑی
نہیں ہے تم کو سلیقہ زمانہ سازی کا

خدا کو کام تو سونپے ہیں میں نے سب لیکن
رہے ہے خوف مجھے واں کی بے نیازی کا

چلو ہو راہ موافق کہے مخالف کے
طریق چھوڑ دیا تم نے دل نوازی کا

کسو کی بات نے آگے مرے نہ پایا رنگ
دلوں میں نقش ہے میری سخن طرازی کا

بسان خاک ہو پامال راہ خلق اے میرؔ
رکھے ہے دل میں اگر قصد سرفرازی کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse