گزر جان سے اور ڈر کچھ نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گزر جان سے اور ڈر کچھ نہیں
by میر تقی میر

گزر جان سے اور ڈر کچھ نہیں
رہ عشق میں پھر خطر کچھ نہیں

ہے اب کام دل جس پہ موقوف تو
وہ نالہ کہ جس میں اثر کچھ نہیں

ہوا مائل اس سرو کا دل مرا
بجز جور جس سے ثمر کچھ نہیں

نہ کر اپنے محووں کا ہرگز سراغ
گئے گزرے بس اب خبر کچھ نہیں

تری ہو چکی خشک مژگاں کی سب
لہو اب جگر میں مگر کچھ نہیں

حیا سے نہیں پشت پا پر وہ چشم
مرا حال مد نظر کچھ نہیں

کروں کیونکے انکار عشق آہ میں
یہ رونا بھلا کیا ہے گر کچھ نہیں

کمر اس کی رشک رگ جاں ہے میرؔ
غرض اس سے باریک تر کچھ نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse