گزرا بنائے چرخ سے نالہ پگاہ کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گزرا بنائے چرخ سے نالہ پگاہ کا
by میر تقی میر

گزرا بنائے چرخ سے نالہ پگاہ کا
خانہ خراب ہو جیو اس دل کی چاہ کا

آنکھوں میں جی مرا ہے ادھر دیکھتا نہیں
مرتا ہوں میں تو ہائے رے صرفہ نگاہ کا

صد خانماں خراب ہیں ہر ہر قدم پہ دفن
کشتہ ہوں یار میں تو ترے گھر کی راہ کا

یک قطرہ خون ہو کے پلک سے ٹپک پڑا
قصہ یہ کچھ ہوا دل غفراں پناہ کا

تلوار مارنا تو تمہیں کھیل ہے ولے
جاتا رہے نہ جان کسو بے گناہ کا

بدنام و خوار و زار و نزار و شکستہ حال
احوال کچھ نہ پوچھیے اس رو سیاہ کا

ظالم زمیں سے لوٹتا دامن اٹھا کے چل
ہوگا کمیں میں ہاتھ کسو داد خواہ کا

اے تاج شہ نہ سر کو فرو لاؤں تیرے پاس
ہے معتقد فقیر نمد کی کلاہ کا

ہر لخت دل میں صید کے پیکان بھی گئے
دیکھا میں شوخ ٹھاٹھ تری صید گاہ کا

بیمار تو نہ ہووے جیے جب تلک کہ میرؔ
سونے نہ دے گا شور تری آہ آہ کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse