گرچہ کب دیکھتے ہو پر دیکھو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گرچہ کب دیکھتے ہو پر دیکھو
by میر تقی میر

گرچہ کب دیکھتے ہو پر دیکھو
آرزو ہے کہ تم ادھر دیکھو

عشق کیا کیا ہمیں دکھاتا ہے
آہ تم بھی تو اک نظر دیکھو

یوں عرق جلوہ گر ہے اس منہ پر
جس طرح اوس پھول پر دیکھو

ہر خراش جبیں جراحت ہے
ناخن شوق کا ہنر دیکھو

تھی ہمیں آرزو لب خنداں
سو عوض اس کے چشم تر دیکھو

رنگ رفتہ بھی دل کو کھینچے ہے
ایک شب اور یاں سحر دیکھو

دل ہوا ہے طرف محبت کا
خون کے قطرے کا جگر دیکھو

پہنچے ہیں ہم قریب مرنے کے
یعنی جاتے ہیں دور اگر دیکھو

لطف مجھ میں بھی ہیں ہزاروں میرؔ
دیدنی ہوں جو سوچ کر دیکھو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse