گرم ہیں شور سے تجھ حسن کے بازار کئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گرم ہیں شور سے تجھ حسن کے بازار کئی
by میر تقی میر

گرم ہیں شور سے تجھ حسن کے بازار کئی
رشک سے جلتے ہیں یوسف کے خریدار کئی

کب تلک داغ دکھاوے گی اسیری مجھ کو
مر گئے ساتھ کے میرے تو گرفتار کئی

وے ہی چالاکیاں ہاتھوں کی ہیں جو اول تھیں
اب گریباں میں مرے رہ گئے ہیں تار کئی

خوف تنہائی نہیں کر تو جہاں سے تو سفر
ہر جگہ راہ عدم میں ملیں گے یار کئی

اضطراب و قلق و ضعف میں کس طور جیوں
جان واحد ہے مری اور ہیں آزار کئی

کیوں نہ ہوں خستہ بھلا میں کہ ستم کے تیرے
تیر ہیں پار کئی وار ہیں سوفار کئی

اپنے کوچے میں نکلیو تو سنبھالے دامن
یادگار مژۂ میرؔ ہیں واں خار کئی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse